ارشد شریف کیس: عدم پیشی و دلچسپی کی وجہ سے ٹرائل روک دیا گیا

جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ نے گواہوں کی عدم پیشی اور عدم دلچسپی کے باعث صحافی ارشد شریف قتل کیس کا ٹرائل روک دیا۔

پاکستانی صحافی ارشد شریف 23 اکتوبر 2022 کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب پولیس کی فائرنگ کر کے نتیجے میں جان سے مارے گئے تھے (ارشد شریف/ فیس بک)

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے گواہوں کی عدم پیشی اور عدم دلچسپی کے باعث صحافی ارشد شریف قتل کیس کا ٹرائل روک دیا ہے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی جانب سے جاری کیے گئے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 16 مارچ کو عدالت میں ارشد شریف قتل کیس کا چالان جمع کروایا گیا تھا۔

’پانچ اپریل کو بیانات ریکارڈ کروانے کے لیے عدالت نے گواہان کو طلبی کا نوٹس بھیجا، بیانات ریکارڈ کروانے کے لیے متعدد بار گواہان کو طلب بھی کیا گیا لیکن کوئی پیش نہیں ہوا۔‘

حکم نامے کے مطابق: ’بظاہر ارشد شریف قتل کیس میں گواہان بیان ریکارڈ کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ 15 مرتبہ پراسیکیوشن کو ثبوت جمع  کروانے کا موقع دیا گیا۔‘

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا: ’گذشتہ سماعت پر پراسیکیوشن کو نوٹس دیا کہ کیوں نہ فائل ریکارڈ روم بھیج دی جائے۔ پراسیکیوٹر کے مطابق پرائیویٹ اور سرکاری گواہان بیانات ریکارڈ کروانے عدالت نہیں آ رہے۔‘

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ارشد شریف قتل کیس کی کاروائی روکی جا رہی ہے۔  

’گواہوں کی پیشی کو دیکھتے ہوئے پراسیکیوشن نئی تاریخ کے لیے درخواست دائر کر سکتی ہے۔ آئندہ احکامات تک ارشد شریف قتل کیس کی فائل کو ریکارڈ روم بھیج رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ برس 23 اکتوبر کو پاکستانی صحافی ارشد شریف کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب پولیس نے فائرنگ کر کے جان سے مار دیا تھا۔

ابتدائی طور پر کینیا کی پولیس نے اس واقعے کو ’غلطی‘ قرار دیا تھا۔ 

پاکستان کے اس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’قتل کا واقعہ ناکے سے 100 کلومیٹر دور مخالف سمت میں ہوا۔‘ 

سپریم کورٹ نے رواں سال مئی میں ارشد شریف قتل کیس میں خصوصی جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کر دی تھی۔

سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ انہیں ایسی رپورٹیں نہیں چاہیے جن میں کچھ پیش رفت نہ ہو۔

ارشد شریف نے گذشتہ برس اپریل میں سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد یہ دعوی کیا تھا کہ انہیں کچھ اداروں کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔

اس کے بعد وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے اور اطلاعات کے مطابق کینیا جانے سے قبل خود ساختہ جلا وطنی کے دوران دبئی اور لندن میں مقیم بھی رہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان