ارشد شریف قتل تحقیقات: سپریم کورٹ کی اقوام متحدہ کو شامل کرنے کی تجویز

کیس کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو تحقیقات میں اقوام متحدہ کو شامل کرنے کی غرض سے وفاقی وزارت داخلہ سے بات کرنے کی ہدایت کی ہے۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ارشد شریف قتل کے از خود نوٹس کیس کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی (عمر فیضان/ انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس اعجاز الاحسن نے جمعرات کو صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں اقوام متحدہ کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن سپریم کورٹ کے اس پانچ رکنی بینچ کا حصہ ہیں، جس نے آج صحافی ارشد شریف قتل کے ازخود نوٹس کی سماعت دوبارہ شروع کی۔

بینچ کے دوسرے اراکین میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔ 

سینیئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کو 23 اکتوبر، 2022 کو نیروبی کے مضافات میں قتل کر دیا گیا تھا۔

بدھ کو پولیس نے صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے بارے میں 13 صفحات پر مشتمل عبوری رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔

سماعت کے دوران عدالت کے ارشد شریف کیس قتل کی تحقیقات میں اقوام متحدہ کو شامل کرنے کے امکانات سے متعلق سوال پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جواب دیا کہ ضرورت پڑنے پر یہ آپشن استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو اقوام متحدہ کو تحقیقات میں شامل کرنے کے لیے  وفاقی وزارت خارجہ سے بات کرنے کی ہدایت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مقتول صحافی ارشد شریف کی موت نہ صرف انسانی حقوق کا معاملہ ہے، بلکہ ایک بہیمانہ قتل بھی تھا، اور اس لیے ان کی پاکستان سے جانے کی وجوہات پر تحقیقات کی جائیں۔

چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات میں کیا پیش رفت ہوئی؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پیش رفت رپورٹ جمع کروا دی گئی ہے، جس کے مطابق سپیشل جے آئی ٹی نے 41 لوگوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں، تحقیقات کینیا، یو اے ای اور پاکستان سمیت تین حصوں پر مشتمل ہیں، اور جے آئی ٹی اراکین نے تحقیقات کے لیے کینیا جانا ہے۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تین ملکوں میں ہونے والی تحقیقات کے تین فیز ہیں، جن میں پاکستان فیز ون، دبئی فیز ٹو اور کینیا فیز تھری ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن کے سوال پر عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ فیز ون (پاکستان میں) تحقیقات کا زیادہ حصہ مکمل ہو چکا۔

عدالت کے پوری تحقیقات کے مکمل ہونے سے متعلق ٹائم فریم کے دریافت کرنے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس سلسلے میں کوئی ٹائم لائن دینا مشکل ہو گا، کیونکہ دبئی میں تحقیقات کے بعد سپیشل جے آئی ٹی 15 جنوری کو کینیا جائے گی۔

دوران سماعت ایک موقعے پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ عدالت جے آئی ٹی کو تحقیقات کے لیے مکمل آزادی دے رہی ہے اور کوئی مداخلت نہیں کر رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'ارشد شریف قتل کی صاف شفاف تحقیقات ہونا چاہیے کیونکہ عدالت اس میں بہت سنجیدہ ہے۔'

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے باہمی قانونی معاونت کا خط لکھنے میں تاخیر کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی موت نہ صرف انسانی حقوق کا معاملہ ہے بلکہ بہیمانہ قتل تھا، اور ان کے پاکستان سے باہر جانے کی وجوہات پر تحقیقات کی جائیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا: 'ارشد شریف کے کچھ ڈیجیٹل آلات ہیں جو ابھی تک نہیں ملے۔ کیا جے آئی ٹی کو پتہ چلا کہ وہ آلات کدھر ہیں؟ پتا چلائیں وہ ڈیجیٹل آلات کینین پولیس،انٹیلی جنس یا ان دوبھائیوں کے پاس ہیں؟ ارشد شریف قتل جے آئی ٹی کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔'

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان