نظام شمسی کی چار ارب برس پرانی باقیات کا نمونہ ناسا کو مل گیا

ناسا کے اس سات سالہ مشن میں خلائی جہاز نے سیارے تک پہنچنے کے لیے چار ارب میل کا سفر کیا اور ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی۔

خلائی مواد لانے والا کیپسول زمین پر پہنچنے کے بعد اس کے اجزا کا جائزہ (سکرین گریب، ناسا ٹوئٹر آفیشل)

نظام شمسی کی دوسری جانب سے حاصل کردہ سیارچے کا ایک ٹکڑا زمین پر پہنچ گیا ہے جو ناسا کے اوسائرس ریکس مشن کی بڑی کامیابی ہے۔

ناسا کے خلائی جہاز نے کئی سال تک سیارچے ’بینو‘ کی طرف پرواز کی اور اس کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے بعد اسے زمین پر بھیجا تاکہ محققین اس کا مطالعہ کر سکیں۔ سیارے کا نمونہ زمین پر پہنچنے کے بعد وہ مشن مکمل ہے جس میں سات سال لگ گئے۔ خلائی جہاز نے سیارے تک پہنچنے کے لیے چار ارب میل کا سفر کیا۔ اس خلائی مشن پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی۔

سائنس دان پرامید ہیں کہ اس مواد کا تجزیہ کرنے سے یہ معلوم کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ سیارے کیسے تشکیل پائے اور ان کا ارتقا کیسے ہوا۔ یہاں تک کہ یہ مواد اس سوال پر بھی روشنی ڈال سکتا ہے کہ زندگی کا آغاز کیسے ہوا۔ چونکہ بینو تقریباً ساڑھے چار ارب سال پرانا ہے، اس لیے یہ نمونہ ابتدائی دور کے نظامِ شمسی کا مشاہدہ کرنے کی مانند ہے۔ ناسا نے اس نمونے کو ’ٹائم کیپسول‘ قرار دیا ہے۔

بینو اس لیے بھی قابلِ ذکر ہے کہ اسے ’سب سے خطرناک سیارچہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ ناسا کی درجہ بندی ہے جو اس بات کا تعین کرتی ہے کہ کوئی سیارچہ زمین کے لیے کتنے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ ناسا کسی سیارچے کا ٹکڑا زمین پر لے کر آیا ہے، اور 2020 کے بعد پہلی بار کسی نے ایسا کیا ہے۔ یہ اب تک سیارچوں سے زمین پر واپس لایا جانے والا سب سے بڑا ٹکڑا بھی ہے، جس کا وزن تقریباً ڈھائی سو گرام ہے۔

 

ناسا نے ہیلی کاپٹروں میں ایک ٹیم بھیجی تاکہ سیارچے کی لینڈنگ سائٹ سے نمونہ حاصل کر کے اس سیل بند ڈبے میں رکھا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ آلودہ نہ ہو پائے۔ چونکہ نمونہ براہ راست سیارچے سے حاصل کیا گیا تھا، لہٰذا اس میں زمین کے کسی مواد کا کوئی شائبہ نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس جو سیارچے زمین پر گرتے ہیں، وہ زمینی اجزا سے آلودہ ہو جاتے ہیں۔

ناسا 38 سے زیادہ عالمی اداروں کے دو سو سے زیادہ افراد میں نمونے کے حصے تقسیم کرے گا۔ ان میں برطانوی سائنس دان بھی شامل ہیں۔

اوسائرس ریکس مشن نے ستمبر 2016 میں زمین سے اڑان بھری تھی اور یہ اکتوبر 2018 میں سیارچے بینو پر پہنچا تھا۔ اس نے اکتوبر 2020 میں نمونے جمع کیے، اور اپریل 2021 میں واپسی کا سفر شروع کیا۔

اس کے بعد سے یہ نمونہ اور خلائی جہاز دونوں نے نظام شمسی کی دوسری جانب سے واپسی کا سفر کیا۔ نمونے پر مشتمل کیپسول الگ ریلیز کرنے کے بعد اوسائرس ریکس نے اپنا مشن جاری رکھنے کے لیے اپنا راستہ بدل دیا اور ’اپوفیس‘ نامی ایک اور سیارچے کی طرف سفر شروع کر دیا جہاں وہ 2029 کو پہنچے گا۔

اپوفیس بھی زمین کے لیے ممکنہ خطرہ ہے۔ بعض اوقات تو اس نے سب سے خطرناک خلائی اشیا کی درجہ بندی میں بینو کی اول پوزیشن کو بھی چیلنج کیا ہے۔ لیکن حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اپوفیس سے خطرہ بینو کی نسبت کم ہے۔

نیچرل ہسٹری میوزیم میں یو کے آر آئی کی فیوچر لیڈرز فیلو ایشلے کنگ کا کہنا ہے کہ ’اوسائرس ریکس نے دو سال سے زائد عرصے تک سیارچے بینو کا مطالعہ کیا اور پانی کے ذریعے کیمیائی طور پر تبدیل ہونے والے نامیاتی اور معدنیات کے شواہد تلاش کیے۔ یہ زمین جیسے سیاروں کی تشکیل کو سمجھنے کے لیے اہم اجزا ہیں، لہٰذا ہم بینو سے واپس آنے والے نمونوں کا مطالعہ کرنے والے پہلے محققین میں شامل ہونے پر خوش ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم سمجھتے ہیں کہ بینو کے نمونے حال ہی میں ونچکوم میں گرنے والے شہاب ثاقب سے ملتے جلتے ہو سکتے ہیں لیکن وہ زمینی ماحول کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی سے بڑی حد تک پاک اور زیادہ خالص ہوں گے۔‘

یونیورسٹی آف مانچسٹر کے شعبہ ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز کی ریسرچ فیلو ڈاکٹر سارہ کروتھر کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر کے چند بہترین سائنس دانوں کے ساتھ کام کرنے والی اوسائرس ریکس سیمپل اینالسس ٹیم کا حصہ بننے کے لیے منتخب ہونا اعزاز کی بات ہے۔

’ہم آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں نمونے حاصل کرنے، ان کا تجزیہ شروع کرنے اور یہ دیکھنے کے لیے پرجوش ہیں کہ سیارچہ بینو میں کیا راز پوشیدہ ہیں۔

’ہماری بہت ساری تحقیق شہاب ثاقب پر مرکوز ہے اور ہم اس سے نظام شمسی کی تاریخ کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ شہاب ثاقب زمین کی فضا سے گزرتے ہوئے گرم ہو جاتے ہیں۔ وہ کئی سال تک زمین پر موجود ہو سکتے ہیں۔ اس لیے مقامی ماحول اور موسم ان کی ساخت اور تاریخ کے بارے میں اہم معلومات کو بدل بلکہ مٹا سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اوسائرس ریکس جیسے نمونے ارسال کرنے والے مشن انتہائی اہم ہیں کیوں کہ ان کے بھیجے گئے نمونے خالص ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق