امریکی محکمہ خارجہ کی ہزاروں ای میلز کی چوری میں ’چینی ہیکرز ملوث‘

محکمہ خارجہ کے آئی ٹی حکام کی بریفنگ میں شریک سینیٹ کے عملے کے مطابق حکام نے قانون سازوں کو بتایا کہ محکمہ خارجہ کے 10 مختلف اکاؤنٹس سے تقریباً 60 ہزار ای میلز چوری کی گئی ہیں۔

چھ اگست 2021 کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی محکمہ خارجہ کا ایک بورڈ دیکھا جاسکتا ہے (اے ایف پی/ ڈینیئل سلم)

امریکی سینیٹ کے عملے کے ایک رکن نے انکشاف کیا ہے کہ چینی ہیکرز، جنہوں نے رواں سال مائیکروسافٹ کے ای میل پلیٹ فارم کی پرائیوسی میں بھی مداخلت کی تھی، اب امریکی محکمہ خارجہ کے اکاؤنٹس سے ہزاروں ای میلز چرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

بدھ کی صبح محکمہ خارجہ کے آئی ٹی حکام کی بریفنگ میں شریک سینیٹ کے عملے کے مطابق حکام نے قانون سازوں کو بتایا کہ محکمہ خارجہ کے 10 مختلف اکاؤنٹس سے تقریباً 60 ہزار ای میلز چوری کی گئی ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حکام نے اگرچہ متاثر ہونے والوں کے نام نہیں بتائے لیکن ان میں سے ایک کے علاوہ تمام مشرقی ایشیا اور پیسیفک کے خطے میں سفارتی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔

سینیٹر ایرک شمٹ کے لیے کام کرنے والے عملے نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بریفنگ کی اندرونی تفصیلات اس شرط پر شیئر کیں کہ ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔

حکام نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ محکمہ خارجہ نے اب ’ہائبرڈ‘ کوششوں کی طرف توجہ مبذول کر لی ہے جس میں ملٹی فیکٹر اوتھینٹیکیشن، اور دیگر کمپنیوں کی خدمات لینا شامل ہیں۔

بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ہیکرز نے مائیکروسافٹ کے انجینئر کی ڈیوائس کے ذریعے پرائیوسی میں مداخلت کی۔

امریکی محکمہ خارجہ نے فوری طور پر اس پیش رفت پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

اس سے قبل بھی بیجنگ پر مبینہ جاسوسی کے الزامات پر چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔

رواں سال فروری میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے جب امریکی حکام نے کہا تھا کہ چین کا ایک جاسوس غبارہ امریکہ کے اوپر پرواز کر رہا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے رپورٹ کیا تھا کہ امریکی فضا میں ’چینی جاسوس غبارے‘ کی موجودگی کی اطلاع کے بعد امریکی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے اس ’جاسوس‘ غبارے کو تباہ کر دیا تھا جس کے بارے میں چین کا کہنا تھا کہ یہ ’تحقیقی مشن‘ پر تھا۔

چین نے امریکہ کے اس اقدام کے ردعمل میں اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی پریکٹس کی سنگین خلاف ورزی ہے اور وہ بھی اس طرح کی ’کارروائی‘ کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

اگست میں بھی امریکہ کے محکمہ انصاف بتایا تھا کہ امریکی بحریہ کے دو حاضر سروس ارکان کو چین کے لیے جاسوسی کے شبے میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ان امریکی اہلکاروں پر شبہ ہے کہ وہ بیجنگ کو خفیہ معلومات بیچ رہے تھے جس میں جنگی جہازوں اور ان کے ہتھیاروں کے نظام کے ساتھ ساتھ ریڈار سسٹم کے بلیو پرنٹس اور ایک بڑی امریکی فوجی مشق کے منصوبے شامل تھے۔

ایف بی آئی کے کاؤنٹر انٹیلی جنس ڈویژن سے وابستہ سوزین ٹرنر نے تین اگست کو کہا تھا کہ ’یہ گرفتاریاں عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے ہماری جمہوریت اور اس کا دفاع کرنے والوں کو کمزور کرنے کی مسلسل اور جارحانہ کوششوں کی یاد دہانی کراتی ہیں۔‘

ان کے بقول: ’چین نے حساس فوجی معلومات کو محفوظ کرنے کے لیے ان اہلکاروں سے سمجھوتہ کیا جس سے امریکی قومی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا