پڑوسی طرز حکمرانی کا مشورہ نہ دیں، تعلقات کو فروغ دیں: طالبان

مولوی امیر خان متقی نے کہا کہ تخریبی عناصر کی نقل و حمل روکنے کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے۔

ماسکو فارمیٹ میں شریک ممالک کے اہلکار افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ 29 ستمبر کو کازان شہر میں گروپ تصویر میں دیکھے جاسکتے ہیں (افغان طالبان)

افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ جس طرح وہ دوسرے ممالک کو طرز حکمرانی کے مشورے نہیں دیتے، دنیا خصوصا پڑوسی ممالک سے بھی وہ یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ طرز حکمرانی کا مشورہ دینے کی بجائے ان کی حکومت کے ساتھ ہر شعبے میں رسمی تعلقات کو فروغ دیں۔

یہ بات انہوں نے روسی دارالحکومت ماسکو میں جاری ماسکو فارمیٹ اجلاس سے خطاب کے دوران کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے ایک طرف افغانستان سے شرپسند عناصر کی امیدیں ختم ہوں گی تو دوسری جانب دنیا کی 70 فی صد آبادی، زیادہ تر دولت اور ایک تہائی توانائی رکھنے والے یورو ایشیا کے خطے سے علاقائی استحکام اور خوش حالی کے لیے استفادہ ممکن ہوگا۔

مولوی امیر خان متقی نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ سمگلروں اور دیگر تخریبی عناصر کی نقل و حمل روکنے کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدی تعاون کے شعبے میں اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ ’ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اجتماعی تعاون کی ضرورت ہے۔‘

ماسکو فارمیٹ کے اس پانچویں مشاورتی اجلاس میں طالبان کے نمائندوں کے علاوہ روس، بھارت، ایران، قازقستان، کرغزستان، چین، پاکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے نمائندے بھی شریک ہیں۔ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی آصف درانی نے کی۔

اجلاس روس کے شہر کازان کے علاقے وولگا میں منعقد ہوا ہے۔ خبر رساں ایجنسی طاس نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اجلاس میں ایک اہم مسئلہ افغانستان میں نسلی اور سیاسی لحاظ سے ایک جامع حکومت کا قیام ہوگا۔

اے ایف پی کا کہنا ہے کہ اگست 2021 میں کابل سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے روس اور چین نے اس خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گہرے نظریاتی اور تاریخی اختلافات کے باوجود طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کازان شہر میں ہونے والے مذاکرات کے شرکا کو تحریری مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان کے ساتھ کثیر الجہتی روابط کو فروغ دیتے رہیں گے۔

روس میں طالبان کو باضابطہ طور پر ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، جس نے سوویت-افغان جنگ کے دوران 1980 کی دہائی میں زیادہ تر اسلامی باغی عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی لڑی تھی۔

مولوی امیر خان متقی نے یاد دلایا کہ دو سال قبل 16 اکتوبر 2021 کو امارت اسلامیہ افغانستان کے ایک موقر وفد نے ماسکو فارمیٹ کے اجلاس میں ایسی صورت حال میں شرکت کی جب افغانستان میں نیٹو اور امریکی جارحیت ختم اور بقول ان کے بیساکھی پر کھڑی کابل انتظامیہ تحلیل ہوگئی تھی۔

’گذشتہ دو سالوں سے اس فارمیٹ اور دیگر فارمیٹس میں ہم نے افغانستان کی سکیورٹی صورت حال کے بارے میں خطے اور دنیا کو اطمینان دلایا کہ امارت اسلامیہ افغانستان ایک ذمہ دار حکومت کے طور پر ایسے کسی گروہ کو اجازت نہیں دے گی کہ وہ افغانستان کی سر زمین دنیا، خطے اور خصوصا پڑوسی ممالک کی سلامتی کے خلاف استعمال کرے۔ امارت اسلامیہ افغانستان نے یہ وعدہ اچھی طرح نبھایا ہے۔‘

ان کا دعوی تھا کہ گذشتہ دو سالوں میں اپنی حکومت کی سیاسی، سکیورٹی اور اقتصادی بنیادوں کی تعمیر نو کرنے کے ساتھ ہم نے بیرونی غاصبین کے سائے میں تربیت پانے والے جنگجو گروپوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم کیا اور انتہائی پیشہ ورانہ طریقے سے پورے ملک میں داعش کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ’ہم نے افغانستان سمیت پورے خطے کی سلامتی کے خلاف ایک بڑی سازش کی آخری کوشش ناکام بنا دی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پچھلی نصف صدی میں افغانستان کو بہت سے سیاسی، سکیورٹی، اقتصادی، سماجی اور خاص طور پر حکومتی قانونی حیثیت کے بحران کا سامنا رہا ہے۔ ’علمی اور عملی تجربے سے معلوم ہوا کہ بحران کی اصل جڑ افغانستان کے اندرونی مسائل کے حل کے لیے بیرونی تجربات، بیرونی تہذیب اور بیرونی احکامات کا اطلاق تھا۔ جس میں ہمارے جغرافیہ، تاریخ، ثقافت، مذہبی اور سماجی اقدار کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا تھا۔

’ہمارے اس دعوے کی مثال ہماری حکومت کے دو سال ہیں۔ ہم نے بغیر کسی بیرونی مدد اور تعاون کے جنگ کا خاتمہ کرکے امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا، پورے افغانستان میں ایک مرکزی حکومت کا قیام ممکن بنایا، بجٹ کو خود مختار بنایا، افغانستان سے کسی ملک کی سالمیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیا، منشیات کے خلاف مؤثر جنگ لڑی، سرکاری اور نجی شعبوں میں ملازمتوں کے مواقع بڑھائے، انصاف تک رسائی کو ہر ضلع اور گاؤں تک بڑھایا، تجارت، ٹرانزٹ اور سرمایہ کاری کے لیے سہولیات پیدا کیں، ملک کے مختلف حصوں میں تعمیر نو کے منصوبوں کا آغاز کیا اور عوام کے محروم طبقات کو خدمات کی فراہمی میں شفافیت کو یقینی بنایا۔ یہ سب کامیابیاں گذشتہ دو عشروں میں نام نہاد جامع جمہوری حکومت لاکھوں ملکی اور غیر ملکی فوجیوں، جدید ہتھیاروں، وسیع مالی امداد اور خطے اور مغربی ممالک کی سیاسی حمایت کے باوجود حاصل نہیں کرسکی۔‘

مولوی امیر خان متقی نے کہا کہ اب اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان پر مرکوز علاقائی کنیکٹیویٹی کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جائے، معیشت پر مبنی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر ہم علاقائی رابطوں کے لیے تمام ضروری سہولیات فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں، چاہے وہ ٹرانسپورٹ ہو یا توانائی کی ترسیل۔‘ 

انہوں نے روسی فیڈریشن کے وزیر اعظم میخائل میشوستن کے ان بیانات کی تائید اور خیر مقدم کی، جس میں انہوں نے کہا کہ ’روس افغانستان اور جنوبی ایشیا سمیت یورو ایشیا کے خطے میں تجارتی راستوں کی ترقی پر توجہ دینے کے لیے تیار ہے۔‘

انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ چین کا سفیر تعینات کرنے کا اقدام دوسرے ممالک کے لیے اچھی مثال بنے گا اور وہ ’ہمارا سفیر بھی قبول کریں گے تاکہ باہمی مفاد کے پیش نظر موثر روابط کی بنیاد فراہم ہوسکے۔‘

ماسکو فارمیٹ

ماسکو فارمیٹ 2017 میں روس، افغانستان، چین، پاکستان، ایران اور بھارت کے خصوصی نمائندوں کے درمیان مشاورت کے لیے چھ فریقی طریقہ کار کی بنیاد پر متعارف کرایا گیا تھا۔  

14 اپریل 2017 کو ہونے والی مشاورت کے پہلے دور میں نائب وزرائے خارجہ اور 11 شراکت دار ممالک کے خصوصی نمائندوں نے شرکت کی جو اسلامی جمہوریہ افغانستان میں تصفیہ حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ 

ان ممالک میں روس، افغانستان، چین، پاکستان، ایران، بھارت، قازقستان، تاجکستان، کرغزستان، ازبکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔ امریکہ کے جن نمائندوں کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ نئی امریکی انتظامیہ کے پاس اس وقت افغانستان کی حکمت عملی کا فقدان تھا۔

روس کے مطابق ماسکو فارمیٹ میٹنگ کا بنیادی مقصد افغانستان میں قومی مفاہمتی عمل کو آسان بنانا اور اس ملک میں جلد از جلد امن قائم کرنا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا