50 ہزار مفرور ملزمان میں تقریباً نصف کا تعلق لاڑکانہ سے کیوں؟ 

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ لاڑکانہ کچے کے علاقے سے متصل ہے لہذا مفرور ملزم وہاں پناہ لے لیتے ہیں جبکہ ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق اس کی وجہ علاقے میں قبائلی لڑائیاں اور مجرمانہ کارروائیاں ہیں۔

لاڑکانہ ڈویژن میں پانچ اضلاع ہیں۔ لاڑکانہ، قمبر-شہدادکوٹ، شکارپور، جیکب آباد اور ضلع کشمور (انڈپینڈنٹ اردو)

سندھ پولیس کی پیر کو سندھ ہائی کورٹ میں جمع ایک رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں 50 ہزار سے زائد مفرور ملزمان میں سے نصف تعداد یا 23 ہزار کا تعلق لاڑکانہ ڈویژن سے ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ اس ڈویژن کے زیادہ تر اضلاع دریائے سندھ کے کچے علاقے سے متصل ہیں لہٰذا ملزمان کی اکثریت کچے میں چھپنے کو ترجیح دیتی ہے جس کے وجہ سے یہاں کے اعداد و شمار زیادہ آئے ہیں۔

لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے سندھ بار کونسل کے رکن اور سندھ ہائی کورٹ کے وکیل وحید علی شر کے مطابق لاڑکانہ ڈویژن کے اضلاع سے لگنے والے دریائے سندھ کے کچے میں پناہ لینے کے باعث صوبے بھر کی نسبت لاڑکانہ ڈویژن میں اشتہاری ملزمان کی اکثریت ہے۔ 

وحید علی شر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’لاڑکانہ ڈویژن کے اضلاع کی اکثریت میں قبائلی لڑائیاں، کچے کے ڈاکوؤں کی جانب سے کی جانے والی وارداتیں جن میں ڈکیتی، قتل، اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کی اکثریت ہے۔  

’ان جرائم میں ملوث افراد جرائم کے بعد کچے میں پناہ لے لیتے ہیں۔ اس لیے گرفتار نہیں ہوتے۔ اس لیے دیگر ڈویژن کی نسبت لاڑکانہ ڈویژن میں مفرور ملزمان کی اکثریت ہے۔‘ 

پیر کو سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ رفعت مختار نے یہ رپورٹ پیش کی۔

رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں 50 ہزار 58 ملزمان مفرور ہیں، جن میں لاڑکانہ ڈویژن سرفہرست ہے اور جہاں نصف کے قریب یعنی 23 ہزار سے زائد مفرور ملزمان پولیس کو مطلوب ہیں۔ 

سندھ میں مفرور ملزمان کی اتنی بڑی تعداد پر عدالت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ صرف لاڑکانہ ڈویژن میں 23 ہزار مفرور ملزمان ہیں، ڈی آئی جی لاڑکانہ کیا کر رہے ہیں؟ جس پر آئی جی سندھ رفعت مختار نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 40 دن پہلے چارج لیا ہے اور ڈی آئی جی لاڑکانہ کو بھی حال ہی میں تعینات کیا گیا ہے۔ 

عدالت نے مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ، بینک اکاؤنٹس اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیئرمین نادرا، وزارتِ داخلہ، دفتر خارجہ اور سٹیٹ بینک سے 23 اکتوبر کو رپورٹ طلب کر لی۔ 

گذشتہ کئی سالوں سے شمالی سندھ کے مختلف اضلاع میں سینیئر سپریٹینڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کے طور پر فرائض سرانجام دینے والے سینیئر پولیس آفیسر عرفان سموں نے لاڑکانہ کے وکیل وحید علی شر کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’دو قسم کے جرائم ہوتے ہیں۔ ایک کسی فرد کے خلاف ہونے والے جرائم، مثال کے طور کسی فرد کو زخمی کرنا، اس سے لڑنا، قتل کرنا۔ دوسری قسم ہے پراپرٹی کا جرم جیسے زمین کا تنازع، لاڑکانہ ڈویژن میں افراد کے خلاف ہونے والے جرائم کی اکثریت ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ان اضلاع میں ذاتی دشمنی، قبائلی لڑائیاں عام ہیں۔ اگر کسی قبیلے کا ایک فرد جرم کرتا ہے تو مقدمے میں تمام گاؤں کے رہائشیوں کو نامزد کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہاں ملزمان کی زیادہ تعداد ہے۔ اور ان کی اکثریت کا تعلق کچے کے علاقوں سے ہے، اس لیے انہیں گرفتار کرنا مشکل ہوتا ہے۔اس لیے لاڑکانہ ڈویژن میں مفرور ملزمان کی اکثریت تعداد ہے۔' 

لاڑکانہ ڈویژن میں پانچ اضلاع ہیں۔ ضلع لاڑکانہ، قمبر-شہدادکوٹ، شکارپور، جیکب آباد اور ضلع کشمور۔ عرفان سموں کے مطابق ان اضلاع کا وسیع علاقہ کچے پر مشتمل ہے، جہاں مختلف مقدمات میں شامل اکثر ملزمان مفرور ہیں۔  

لاڑکانہ ڈویژن کے ضلع کشمور کے کندھ کوٹ شہر میں گذشتہ کئی سالوں سے وکالت کرنے والے سینیئر وکیل اور سندھ بار کونسل کے رکن عبدالغنی بجارانی نے لاڑکانہ ڈویژن میں مفرور ملزمان کی اکثریت کا ذمہ دار قبائلی لڑائیوں کو قرار دیا۔ 

انہوں نے کہا کہ ’لاڑکانہ ڈویژن کے اکثر اضلاع خاص طور پر کشمور ضلعے میں گذشتہ تین دہائیوں سے مختلف قبیلوں میں جاری لڑائیوں کے باعث لاتعداد سرکاری سکول مکمل طور پر بند ہیں۔30 سالوں سے سکول بند ہونے کے باعث پوری ایک نسل تعلیم حاصل نہ کر سکی۔  

’نوجوانوں کی بڑی تعداد تعلیم کے بغیر بے روزگار ہے۔ یہ بے روزگار نوجوان جرائم میں ملوث ہیں۔ جرائم میں ملوث ان افراد کی اکثریت مفرور ہے۔ کیوں کہ یہ افراد کسی نہ کسی طاقت ور قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔  

انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ضلعے کی پولیس میں قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں اور جب پولیس کسی ملزم کو پکڑتی ہے تو اس قبیلے کے لوگ ملزم کو گرفتار کرنے والے پولیس افسر کو مخالف قبیلے کا قرار دے کر جرگے بلاتے ہیں اور اس پولیس افسر پر بھاری جرمانہ عائد کرتے ہیں۔ 

’ماضی میں ایسے جرگے پولیس افسران سے 10 لاکھ روپوں سے 20 لاکھ روپے تک جرمانے وصول کرچکے ہیں۔ اس لیے پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے سے گریز کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ سندھ کے دیگر اضلاع کی نسبت لاڑکانہ ضلع میں مفرور ملزمان کی اکثریت ہے۔‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان