لاڑکانہ جیل: جب ایک قیدی کی واپسی پر پولیس اہلکار بازیاب ہوئے

لاڑکانہ کی سینٹرل جیل میں یرغمال بنائے گئے پولیس اہلکاروں کو اس وقت بازیابی ملی جب انتظامیہ نے ایک قیدی کو واپس جیل منتقل کیا۔

سینٹرل جیل لاڑکانہ کے حکام نے قیدیوں کے مطالبات منظور کرتے ہوئے ہفتے کو ایک قیدی کو واپس لاڑکانہ جیل منتقل کر دیا۔

سینٹرل جیل لاڑکانہ کے قیدیوں نے پانچ فروری کو جیل کے سات پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا، جس کے بعد انہوں نے 10 فروری کو پانچ مغوی پولیس اہلکاروں جبکہ باقی دو اہلکاروں کو 11 فروری کو رہا کر دیا۔

اس کے بعد 12 فروری کو جیل انتظامیہ نے قیدیوں کے مطالبات منظور کرتے ہوئے ایک قیدی محمد علی کھوکھر کو جیکب آباد جیل سے واپس لاڑکانہ جیل منتقل کر دیا۔

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ لاڑکانہ سینٹرل جیل مولا بخش سہتو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سینٹرل جیل میں مسائل پیدا کرنے والے 70 قیدیوں کو لاڑکانہ جیل سے سندھ کی دیگر جیلوں میں منتقل کیا گیا تھا۔

’یہ منتقلی انتظامی وجوہات کی بنا پر کی گئی مگر اس واقعے کے بعد سینٹرل جیل لاڑکانہ میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔‘

ان کے مطابق ’قیدیوں نے پہلے سات پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا جس کے بعد انہوں نے مطالبات منظور ہونے کی صورت میں پہلے پانچ اہلکاروں کو رہا کیا۔

’سینٹرل جیل لاڑکانہ سے جیکب آباد کی جیل میں منتقل ہونے والے ایک قیدی کی واپسی کی یقین دہانی پر باقی دو اہلکاروں کو بھی رہا کردیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ لاڑکانہ کی سینٹرل جیل میں 600 قیدیوں کی گنجائش ہے مگر یہاں ایک ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں۔ ’زیادہ ترانتظامی مسائل قیدیوں کی اضافی تعداد کے باعث پیش آتے ہیں۔‘

چند روز قبل ایس ایس پی سینٹرل جیل لاڑکانہ اشفاق کلوڑ نے اس معاملے پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’قیدیوں کے مطالبات نہیں مانے جائیں گے کیوں کہ وہ غیر قانونی ہیں اور ان کا احتجاج بالکل ناجائز ہے۔ اس کیشدگی کی صورت میں جیل کا مینول فالو کیا جائے گا اور قانون کی رٹ بحال کی جائے گی۔‘

تاہم ایس ایس پی سینٹرل جیل اپنے دعوے پر عمل درآمد نہیں کرسکے اور 11 فروری کو یرغمال بنائے گئے سات پولیس اہلکاروں کی رہائی کے اگلے ہی دن قیدی محمد علی کھوکھر کو واپس لاڑکانہ جیل منتقل کردیا گیا۔

سینٹرل جیل لاڑکانہ میں پولیس کو یرغمال بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔

مقامی صحافی شہزاد علی خان کے مطابق جب بھی سینٹرل جیل لاڑکانہ میں اس طرح کی کشیدگی ہوتی ہے تو ہمیشہ باہر والوں کی مداخلت سے معاملات حل ہوتے ہیں۔

شہزاد علی خان کا کہنا ہے کہ ’مختلف خاندانوں کے سردار آتے ہیں اور وہ قیدیوں سے مذاکرات کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ تک ان کی مطالبات پہنچاتے ہیں۔ قیدیوں کے مطالبات کی منظوری کے بعد معاملہ وقتی طور پر حل ہو جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سینٹرل جیل لاڑکانہ گذشتہ دو ڈھائی سالوں سے مسائل کا گڑ بنی ہوئی ہے۔ ماضی میں بھی قیدیوں نے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا، پانچ چھ دنوں تک ان کو زدوکوب کیا اور ان کی ویڈیوز بنا کر مقامی صحافیوں کو بھیجیں۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جیل میں منشیات کی فراہمی اور موبائل فون کا آزادانہ استعمال عام ہے۔

ان کے مطابق ’یہاں کے قیدی اتنے آزاد ہیں کہ وہ یرغمال بنائے گئے اہلکاروں سے اپنے مطالبات کی اپیل کروا کے، ان کی ویڈیوز بنا کر جیل سے براہ راست لاڑکانہ کے صحافیوں کو واٹس ایپ پر بھیجتے ہیں اور اپنی خبریں چلوانے کے لیے فون کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ جیل سے فیس بک لائیو بھی کرتے ہیں۔‘

اس دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے سینٹرل جیل لاڑکانہ میں موجود ایک 19 سالہ قیدی کے نمبر پر فون کیا اور واٹس ایپ پر بات کی۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر قیدی نے فون کال پر بتایا کہ ’پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنانے کا معاملہ ایک ماہ پہلے شروع ہوا جب جیل سپرنٹنڈنٹ نے قیدی واجد جتوئی کو کراچی سینٹرل جیل منتقل کیا۔

’اس کے بعد قیدی محمد علی کھوکھر کو جیکب آباد جیل بھیج دیا گیا۔ ہم قیدیوں نے پولیس اہلکاروں کو اس لیے یرغمال بنایا تاکہ ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جب سے قیدیوں کو مختلف جیلوں میں منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا قیدی احتجاج کر رہے ہیں جس کے بعد پولیس نے جیل کی بجلی بند کردی، آنسو گیس کی شیلنگ کی اور گولیاں چلائیں۔

’اس بار قیدیوں نے جب احتجاج کیا تو پولیس نے ان پر شیلنگ کی جس کی زد میں وہ قیدی بھی آئے جن کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس دوران جیل کچھ قیدیوں نے فیس بک لائیو کیا اور ویڈیوز بنا کر صحافیوں کو بھیجیں تاکہ لوگوں کو دکھایا جائے کہ پولیس ہمارے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے۔‘

قیدیوں کے مطالبات پورے ہونے کے باوجود جیل کے حالات تاحال کشیدہ ہیں۔

ایس ایس پی سینٹرل جیل لاڑکانہ اشفاق کلوڑ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’بدقسمتی سے کافی عرصے سے سینٹرل جیل لاڑکانہ کا ماحول خراب ہے۔ اسی سلسلے میں گذشتہ چھ ماہ سے میں یہاں کام کر رہا ہوں۔

’میں اب تک جیل انتظامیہ کے 13 اہلکاروں کا تبادلہ کرچکا ہوں جو مبینہ طور پر جیل کے امن و امان کو خراب کرنے اور قیدیوں کی سہولت کاری میں ملوث تھے۔ ان میں کانسٹیبلز، ہیڈ کانسٹیبلز اور ڈسپینسر شامل ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میرا وژن ہے کہ لاڑکانہ جیل کے معاملات بہتر کر کے اسے ایک اصلاح گھر میں تبدیل کیا جائے اور یہ کرنے کے لیے میں اپنی ہر ممکن کوشش کروں گا۔‘

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ لاڑکانہ جیل مولا بخش سہتو کا کہنا ہے کہ ’پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنانے کا واقعہ گذشتہ سال اگست میں بھی پیش آیا تھا البتہ وہ ایک دن میں ہی حل ہوگیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس بار اس یہ معاملہ کافی طول پکڑ گیا۔ قیدیوں نے احتجاج کیا مگر یہ دعویٰ غلط ہے کہ ہم نے ان کے بیرکس کی بجلی بند کی، وہ معمول کے مطابق لائٹس بند کرنے کا عمل تھا اور نہ قیدیوں پر آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔‘

جیل میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کے استعمال پر ان کا کہنا تھا کہ ’لاڑکانہ سینٹرل جیل میں جیمرز نہیں اس لیے موبائل اور انٹرنیٹ دونوں کے نیٹ ورکس آتے ہیں۔

’جیل میں اب تقریباً ہر کسی کے پاس موبائل فون ہے البتہ یہ تبدیلی کچھ سال پہلے ہی آئی ہے جب اس جیل میں پچھلے افسران نے کچھ قیدیوں کو موبائل فونز رکھنے کی اجازت دی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حالیہ واقعے کے دوران کئی قیدیوں نے انٹرنیٹ کا استعمال کرکے یرغمال بنائے گئے پولیس افسران کی تصاویر اور ویڈیوز جیل سے باہر بھیجیں۔

’اس کے باعث جیل انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد سینٹرل جیل کی طرز پر یہاں بھی جیمرز لگائے جائیں۔ ہم نے اس کی درخواست دی ہے اور جلد ہی اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان