پنجاب: مسلم لیگ ن کے علاوہ سیاسی جماعتیں غیر متحرک کیوں؟

الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری 2024 میں انتخابات کے اعلان کے بعد تمام سیاسی جماعتیں تیاری کا دعویٰ تو کر رہی ہیں لیکن پنجاب میں مسلم لیگ ن کے علاوہ کوئی بھی سیاسی جماعت عملی طور پر متحرک دکھائی نہیں دے رہی۔

15 مئی، 2023 کی اس تصویر میں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز اسلام آباد میں ہونے والے ایک جلسے میں شریک ہیں (اے ایف پی/عامر قریشی)

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جنوری 2024 میں عام انتخابات کے اعلان کے بعد ویسے تو تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی حکمت عملی بنانے کا دعویٰ کر رہی ہیں لیکن پنجاب میں مسلم لیگ ن کے علاوہ کوئی بھی سیاسی جماعت عملی طور پر متحرک دکھائی نہیں دے رہی۔

مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی 21 اکتوبر کو وطن واپسی پر استقبال کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔

مسلم لیگ ن پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کے مطابق ہم انتخابات کے لیے تیار ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مینار پاکستان جلسے سے باقاعدہ انتخابی مہم شروع ہوجائے گی۔ دیگر جماعتوں کی جانب سے بھی تیاریاں ہو رہی ہوں گی، ہم عوامی رابطہ مہم کے ذریعے پنجاب سمیت ملک بھر میں کامیابی کے لیے پر امید ہیں۔‘

عظمیٰ بخاری نے مزید کہا کہ نواز شریف آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان خود جلسے میں کریں گے۔ ’ہر جماعت کو مہم چلانے کی اجازت ہے لیکن قانون کی پاسداری سب پر لازم ہے۔‘

اس کے برعکس پنجاب کی سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جلد انتخابات کا مطالبہ تو کر رہی ہے لیکن عملی طور پر انتخابی مہم چلانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت بھی جوڑ توڑ کی حد تک اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہے مگر ابھی تک عوامی رابطہ مہم کا باقاعدہ آغاز نہیں کر سکی۔ البتہ پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکریٹری رہنما حسن مرتضیٰ نے کہا ہے کہ 18 اکتوبر سے پنجاب میں ورکرز کنونشن  کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔

حسن مرتضیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’ہم نے لیول پلیئنگ فیلڈ کی شکایات کے ساتھ 18 اکتوبر سے پنجاب میں ورکرز کنونشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان اجتماعات سے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ویڈیو لنک پر خطاب کریں گے۔‘

تحریک انصاف سینٹرل پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری عظیم اللہ خان نے ڈپٹی کمشنر لاہور کو تحریری درخواست دی ہے کہ تحریک انصاف کو 15 اکتوبر بروز اتوار لاہور کے لبرٹی چوک میں جلسے کی اجزت دی جائے۔

پی ٹی آئی پنجاب نے انتظامیہ سے لاہور میں لبرٹی چوک جلسے کی اجازت ضررو مانگی ہے مگر پارٹی کے مرکزی ترجمان رؤف حسن کہتے ہیں کہ ’شدید مہنگائی میں جس طرح مسلم لیگ ن کو عوامی ردعمل کا سامنا ہے اور جو ملکی معاشی صورت حال ہے، اس میں انتخابات فوری ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔‘

اس صورت حال کے حوالے سے صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ ’مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی تو انتخابی مہم چلانے میں سنجیدہ ہیں لیکن پی ٹی آئی سیاسی کسمپرسی اور رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ کی وجہ سے عوامی رابطہ مہم چلانے سے قاصر ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’مولانا فضل الرحمن کے معاشی صورت حال بہتر ہونے تک انتخابات ملتوی کرنے کے مطالبے سے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے الیکشن میں تاخیر کی خواہش کا تاثر ابھر رہا ہے مگر الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے اعلان سے انتخابات کا انعقاد یقینی ہو چکا ہے۔‘

مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کی انتخابی مہم میں فرق

سابق وزیراعظم شہباز شریف نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں بتایا کہ انہوں نے اپنے قومی اسمبلی کے حلقے سے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا ہے۔ ’اس کیمپین کا مقصد صرف اپنا ایجنڈا عوام کے سامنے رکھنا ہی نہی بلکہ ان کی باتیں اور تجاویز سن کر ان سے سیکھنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا بھی ہے۔‘

بقول شہباز شریف: ’میرے حلقے سے کچھ لوگوں نے میری گاڑی روک کر اپنے مسائل بیان کیے۔‘ انہوں نے سیاست کو ’ایک عبادت‘ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’یہ عبادت خلق خدا کی خدمت کر کے ہی کی جا سکتی ہے۔‘

دوسری جانب مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے بھی یکم اکتوبر سے لاہور میں جلسوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی مسلم لیگ ن کے رہنما جلسے کر رہے ہیں اور نواز شریف کی وطن واپسی پر 21 اکتوبر سے مینار پاکستان جلسے سے انتخابی مہم کے باقاعدہ آغاز کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان رؤف حسن انتخابات کے حوالے سے کچھ زیادہ پر امید نظر نہیں آتے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ہمیں الیکشن ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، اس کی ایک وجہ تو ملکی معاشی صورت حال ہے دوسرا یہ کہ جس طرح جلسے کے بعد شہباز شریف کی گاڑی روک کر لوگوں نے ردعمل ظاہر کیا ان حالات میں مسلم لیگ ن بھی الیکشن نہیں چاہتی۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’لیکن ہم جلد انتخابات منعقد کروانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ الیکشن کے مکمل شیڈول کا اعلان کرے۔‘

ترجمان پی ٹی آئی نے ایک بیان میں کہا کہ ’90 روز کی آئینی مدت میں انتخاب کا انعقاد لازمی دستوری تقاضہ، الیکشن کمیشن کا فرض اور جمہور کا بنیادی حق ہے۔ ریاست دستور کے تابع ہے اور دستور جمہور کی آزاد مرضی کو سیاسی و حکومتی نظام کی بنیاد بناتا ہے۔ دستور کے کسی ایک آرٹیکل یا حصے کو معطل کرنا پورے دستور کو معطل کرنے کے مترادف ہے جو ایک سنگین جرم ہے۔ ‘

ترجمان پی ٹی آئی کے مطابق: ’انتخابات اور ان کے انعقاد کے حوالے سے دستور کسی ریاستی ادارے کو تنہا یا دیگر کو ساتھ ملا کر عوامی منشا کے برعکس کسی فیصلے کا ہرگز کوئی اختیار نہیں دیتا۔ منتخب اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت اور ان اسمبلیوں کی بروقت یا قبل ازوقت تحلیل کے حوالے سے دستور کے احکامات دوٹوک اور واضح ہیں۔

’آئین اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل کی صورت میں انتخابات کے 90 روز میں انعقاد کا حکم دیتا ہے جس کی تشریح سپریم کورٹ، توثیق صدرِ مملکت کرچکے ہیں۔‘

رؤف حسن کے بقول: ’الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کے پاس دستور کی منشا کے مطابق انتخابات کے انعقاد کے لیے محض 34 روز کی مہلت باقی بچی ہے۔  صدرِ مملکت اپنے خط میں الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے نو نومبر کی تاریخ تجویز کرچکے ہیں۔ مقررہ مدت میں انتخابات کے انعقاد سے گریز سے آئین پامال کیا گیا تو الیکشن کمیشن اور نگران وزیراعظم اپنی کابینہ سمیت دستور شکنی کے مرتکب ہوں گے جس پر آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی بنتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’معزز چیف جسٹس دستور کی پامالی کی قبل از وقت راہ روکیں اور الیکشن کمیشن اور نگران سرکار کو دستور کا پابند بنائیں۔ عوام کے ووٹ کے حق کو غیرمعینہ مدت تک التوا میں ڈالنے کی کوششیں قوم کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔‘

تحفظات کے سائے میں انتخابی مہم

سینیئر سیاسی تجزیہ کار سلیم بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی مہم چلا رہی ہیں البتہ پنجاب میں ن لیگ کے مقابلے میں کوئی جماعت زیادہ متحرک دکھائی نہیں دے رہی۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو انہوں نے جو مہم چلانی تھی، نو مئی کو چلا لی اب انہیں شاید موقع نہیں ملے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن واحد جماعت کے لیڈر ہیں، جو پہلے معاشی استحکام اور اس کے بعد انتخابات منعقد کروانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس سے یہ تاثر بھی ابھر رہا ہے کہ شاید اسٹیبلشمنٹ بھی فوری انتخابات نہیں چاہتی۔

’مگر الیکشن کمیشن کی جانب سے شیڈول جاری ہونے اور دو بڑی جماعتوں کے اس اعلان کے مطابق مہم چلانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ الیکشن جنوری میں ہی ہوں گے۔‘

سلیم بخاری نے کہا کہ ’نواز شریف کی وطن واپسی اور آصف علی زرداری کا متحرک ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ البتہ تحریک انصاف سیاسی طور پر کمزور ہونے اور قیادت کی گرفتاریوں کے باعث صرف بیان بازی تک الیکشن چاہتی ہے، عملی طور پر ان کے پلڑے میں کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔‘

پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکریٹری حسن مرتضیٰ کہتے ہیں کہ وہ ’اپنی حکمت عملی کے تحت انتخابات کی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’ہمیں یقین ہے الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کے مطابق ہی انتخابات ہوں گے۔ جو لوگ انتخابات میں تاخیر کی افواہیں پھیلا رہے ہیں انہیں مایوسی ہو گی۔ مقابلے سے بھاگنے کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو میدان میں اترنا چاہیے اور عوام کے مسائل سننے چاہییں تاکہ جو پارٹی بھی اقتدار میں آئے وہ ان مسائل کو حل بھی کر سکے۔‘

تجزیہ کار سلیم بخاری کے مطابق: ’جو کامیابی کی امید نہیں رکھتے وہ ان سوالوں میں الجھے ہوئے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی ہوگی یا نہیں؟ انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ اسی غیر یقینی میں الیکشن کا دن آجائے گا اور شکست کی صورت میں دھاندلی کے الزام پر سیاست ہوگی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست