اقوام متحدہ کی پاکستان کو افغانوں کے اندراج میں مدد کی پیشکش

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی پاکستان تقریباً 15 لاکھ رجسٹرڈ پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا تھا جو دنیا بھر میں سب سے بڑی ایسی تعداد ہے۔

افغان پناہ گزین 25 فروری، 2014 کو ہری پور نادرا رجسٹریشن سینٹر میں (فاروق نعیم/ اے ایف پی)

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر (یو این ایچ سی آر) اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے ہفتے کو پاکستان کو ملک میں موجود افغان شہریوں کی رجسٹریشن اور انتظام کے لیے نظام وضع کرنے میں مدد کی پیشکش کی ہے۔

پاکستان کی نگران حکومت نے منگل کو کہا تھا کہ ملک میں موجود تمام غیر قانونی تارکین وطن یکم نومبر تک رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑ دیں۔ اس ڈیڈ لائن کے بعد وہ انہیں زبردستی ملک بدر کرے گی۔ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’یکم نومبر کے بعد پاکستان میں داخلے کی اجازت صرف ویزا اور پاسپورٹ کی بنیاد پر دی جائے گی۔‘

یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اسلام آباد ملک میں افغان شہریوں کی موجودگی کے حوالے سے فکرمند ہے۔

حکومتی فیصلے کو ملک میں موجود ان افغان شہریوں کے لیے ایک دھچکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو پاکستانی حکام کے مطابق 2021 میں غیر ملکی افواج کے افغانستان چھوڑنے اور طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سے لاکھوں کی تعداد میں پاکستان منتقل ہو چکے ہیں۔

یو این ایچ سی آر اور آئی او ایم نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ’یو این ایچ سی آر اور آئی او ایم حکومت پاکستان کے ساتھ دیرینہ اور ٹھوس تعاون کر رہے ہیں اور وہ افغان شہریوں کے اندراج اور انتظام کے لیے جامع اور پائیدار میکنزم تیار کرنے میں مدد فراہم کرنے پر تیار ہیں۔ ان لوگوں میں وہ بھی شامل ہیں جنہیں بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‘

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی پاکستان تقریباً 15 لاکھ رجسٹرڈ پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا تھا جو دنیا بھر میں سب سے بڑی ایسی تعداد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ سے زائد افغان پاکستان میں غیر رجسٹرڈ ہیں۔

اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کو انسانی بحران سمیت انسانی حقوق کے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ خاص طور پر خواتین اور لڑکیاں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کے پاکستان کے اقدام کے ان تمام افراد پر ’سنگین اثرات‘ مرتب ہوں گے جو افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور واپسی پر انہیں ’تحفظ کے سنگین خطرات‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’افغان شہریوں کی جبری وطن واپسی کے نتیجے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوسکتی ہیں جن میں خاندانوں میں علیحدگی اور بچوں کی ملک بدری شامل ہے۔‘

ایجنسیوں نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ افغان شہریوں کی زبردستی وطن واپسی کو معطل کر دیں اور ان کی محفوظ اور باوقار طریقے سے واپسی کو یقینی بنائیں۔

افغان شہریوں کی ملک بدری کی دھمکی دینے کے پاکستان کے اقدام پر کابل کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے اور افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو اس فیصلے کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستان میں موجود افغان شہری ملک کی سلامتی کے مسائل میں ملوث نہیں۔ انہوں نے اسلام آباد سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں برداشت کرے۔

پاکستان میں تشدد میں حالیہ اضافے کی وجہ حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند نیٹ ورک کے درمیان گذشتہ نومبر میں ہونے والی کمزور جنگ بندی ختم ہونا بھی شامل ہے۔ ٹی ٹی پی کی قیادت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں مقیم ہے۔

پاکستان میں 29 نومبر کو مسجد اور مذہبی اجتماع پر دو خودکش بم دھماکوں میں 60 سے زائد افراد جان سے گئے جس کے بعد حکومت نے تمام غیر قانونی تارکین وطن سے کہا کہ وہ  اگلے ماہ تک ملک چھوڑ دیں یا جبری بے دخلی کے لیے تیار رہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان