ایک آزاد انکوائری کمیٹی میں برطانیہ کی سپیشل سکیورٹی فورسز کی جانب سے افغانستان میں مبینہ طور پر ’لڑنے کی عمر والے‘ مردوں کو ان حالات میں بھی قتل کرنے کی پالیسی کا انکشاف ہوا ہے جب وہ کسی خطرے کا بھی باعث نہیں تھے۔
سال 2010 اور 2013 کے درمیان جنگ زدہ افغانستان میں مبینہ غیر قانونی سرگرمیوں پر مرکوز تحقیقات میں اہم الزام یہ ہے کہ برطانیہ کی خصوصی فورسز نے اس پالیسی کو انجام دینے کے لیے رات کے چھاپوں کا ’غلط استعمال‘ کیا۔
انکوائری میں متاثرین کے وکیل اولیور گلاسگو کے سی نے کہا کہ ایسے دعوے بھی سامنے آئے ہیں کہ غیر ملکی فورسز کی اتحادی افغان یونٹس نے ’انہی رویوں کی وجہ سے برطانیہ کی خصوصی افواج کے ساتھ خدمات انجام دینے سے انکار کر دیا تھا۔‘
رات کی کارروائی کے دوران ایک مبینہ غیر قانونی قتل کے حالات کی تفصیل بتانے سے پہلے، جسے ’ ڈیلیبریٹ ڈیٹینشن آپریشن‘ (ڈٰی ڈی او) بھی کہا جاتا ہے، گلاسگو نے انکوائری کو دکھائی جانے والی ان ’گرافک‘ تصاویر کے بارے میں وارننگ دی جو’پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔‘
انکوائری کو بتایا گیا کہ زیر بحث ڈی ڈی او کے نتیجے میں 2001 اور 2007 کے درمیان افغان حکومت کے لیے کام کرنے والے عہدیدار محمد ابراہیم مارے گئے تھے۔
محمد ابراہیم کے بیٹے عبدالولی سمیت ان کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ وہ ’ایک معصوم شہری تھے جن کے کمپاؤنڈ میں کوئی ہتھیار نہیں ملا‘ جب وہ گولی لگنے اور فوجی کتے کے کاٹنے سے زخمی ہوئے تھے۔
اس کے بعد گلاسگو کی جانب سے ایک اور ڈی ڈی او کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا جس میں نو افراد مارے گئے تھے جن کے اہل خانہ کا دعویٰ تھا کہ انہیں اس وقت ان کے بستروں میں گولیاں ماری گئیں جب حتمی امکان تھا کہ وہ سو رہے تھے۔
حبیب اللہ علی زئی، جو کمپاؤنڈ میں رہنے والے خاندان کے سربراہ تھے، نے کہا کہ وہ ’چیخنے اور گولیوں کی آوازوں‘ سے بیدار ہوئے اور چھاپے کے دوران (برطانوی) فوجیوں نے ان سے پوچھ گچھ کی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔
متاثرین کے وکیل اولیور گلاسگو نے کہا کہ سپیشل فورسز کے مطابق ’دونوں ڈی ڈی اوز میں فوجیوں نے ’اپنے دفاع میں‘ جان لیوا طاقت کا استعمال کیا۔
لندن میں رائل کورٹ آف جسٹس میں پیر کو شروع ہونے والی سماعتوں سے پہلے، غیر قانونی قتل کا الزام لگانے والے خاندانوں نے تحقیقاتی کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ ’ہمیں سچائی بتائی جائے۔‘
تحقیقاتی کمیٹی ان کارروائیوں کے دوران انجام دی گئیں ’متعدد‘ اموات کی انکوائری کری گی نیز غیر قانونی سرگرمیوں کی مبینہ پردہ پوشی اور رائل ملٹری پولیس کی ناکافی تحقیقات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
اس کو حکومت کو درپیش قانونی چیلنجوں کے ساتھ ساتھ متعدد اہم میڈیا تحقیقات کے تناظر سیف اللہ اور نورزئی خاندانوں کی جانب سے قانونی فرم ’لی ڈے‘ کے وکیلوں نے شروع کیا تھا۔
گلاسگو نے کہا کہ برسوں بعد سامنے آنے والے ایک ’ریسٹرکٹڈ سکیورٹی کمپارٹمنٹ‘ میں کیے گئے دعوؤں میں ایک فوجی کی بات چیت کی تفصیلات موجود ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر ’سپیشل فورسز میں لڑائی کی عمر کے مردوں کو مارنے کی پالیسی کا اعتراف کیا تھا۔‘
اپنی ابتدائی گذارشات میں انہوں نے کہا: ’ان لوگوں کے لیے کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے جو کچھ چھپا رہے ہیں، انکوائری اپنے تمام اختیارات استعمال کر کے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اگر غلط کام کی مصدقہ اطلاعات ہیں تو انہیں متعلقہ حکام کے حوالے کیا جائے گا۔‘
سیف اللہ خاندان کے ایک رکن نے، جن کا دعویٰ ہے کہ فروری 2011 میں ان کے والد، دو بھائیوں اور ایک کزن رات کے چھاپے کے دوران مارے گئے تھے، کہا کہ برطانوی افواج کے چھاپے کے بعد سے وہ ’ڈراؤنے اور مشکلات سے بھرے خوابوں کا شکار ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’میں اور میرا خاندان انکوائری ٹیم سے درخواست کرتا ہے کہ وہ سچ سامنے لائیں اور بتائیں کہ ہمیں اس ظلم سے کیوں اور کس بنیاد پر گزرنا پڑا۔‘
تحقیقاتی کیمٹی اب آٹھ بچوں سمیت 33 افراد کے اہل خانہ کی جانب سے گذارشات سننے کے لیے تیار ہیں جنہیں مبینہ طور پر برطانوی خصوصی فورسز نے قتل کر دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منصور عزیز نے ان دو بچوں کی درخواست سننے کے لیے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے جنہیں برطانوی افواج نے اگست 2012 میں مبینہ طور پر ان گھر پر رات کے چھاپے کے دوران شدید زخمی کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا: ’ہمارے گھر پر غیر ملکیوں نے چھاپہ مارا اور میرے بھائی اور بہنوئی کو مار ڈالا اور ان کے دو بچے اس وقت شدید زخمی ہوئے جب وہ اپنے بستر پر سو رہے تھے۔ ہم حقیقت جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر پر چھاپہ کیوں مارا گیا۔ ہم عدالت سے ان بچوں کی بات سننے اور انصاف دلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘
دو آر ایم پی تحقیقات، جن کا کوڈ ’آپریشن نارتھ مور اور آپریشن سیسٹرو‘ ہے، انکوائری کے ذریعے جانچ پڑتال کے لیے تیار ہیں۔
آپریشن نارتھ مور کے تحت کوئی الزام نہیں لایا گیا۔ یہ 10 ملین پاؤنڈ کی تحقیقات 2014 میں ان بچوں سمیت خصوصی فورسز کی جانب سے کیے گئے قتل کے الزامات کی جانچ کے لیے قائم کی گئی تھی۔
آپریشن سیسٹرو میں تین فوجیوں کو سروس پراسیکیوٹنگ اتھارٹی کے حوالے کیا گیا لیکن کسی پر بھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔
آزاد قانونی انکوائری اس وقت کے وزیر دفاع بین والیس نے 2005 انکوائریز ایکٹ کے تحت کی تھی۔
برطانوی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ ’وزارت دفاع انکوائری کی حمایت کے لیے پوری طرح پرعزم ہے کیونکہ یہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔‘
ان کے بقول: ’ہمارے لیے ان الزامات پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے جو قانونی انکوائری کے دائرہ کار میں ہو سکتے ہیں اور یہ قانونی تحقیقاتی ٹیم، جس کی سربراہی لارڈ جسٹس ہیڈن کیو کر رہے ہیں، پر منحصر ہے کہ وہ کن الزامات کی تحقیقات کرتی ہے۔‘