وائٹ ہاؤس نے منگل کو کہا کہ طالبان حکومت نے 2021 میں امریکی فوج کے انخلا کے دوران کابل ہوائی اڈے پر تباہ کن خودکش بم حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کو مار دیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی ایک حالیہ رپورٹ میں پینٹاگون کی لیک ہونے والی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ امریکہ کا ماننا ہے کہ انخلا کے بعد سے افغانستان داعش گروپ کے لیے ’سٹیجنگ میدان‘ بنتا جا رہا ہے۔
کربی نے منگل کو اپنے بیان میں مزید کہا، ’ہم نے طالبان پر واضح کر دیا کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ دہشت گردوں کو کوئی محفوظ پناہ گاہ نہ دیں، خواہ القاعدہ ہو یا داعش خراساں۔‘
کئی امریکی عہدے داروں کے مطابق وہ اس ماہ کے اوائل میں جنوبی افغانستان میں طالبان اور داعش گروپ کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کے دوران مارے گئے۔
لیکن گذشتہ چند دنوں میں امریکی انٹیلی جنس نے ’بڑے اعتماد کے ساتھ‘ تصدیق کی کہ داعش کے رہنما کو مار دیا گیا ہے۔
ہفتے کے آخر میں امریکی فوج نے دھماکے میں مارے جانے والے 11 میرینز، اور فوجیوں کے والدین کو مطلع کرنا شروع کیا، جنہوں نے یہ معلومات ایک نجی گروپ میسجنگ چیٹ میں شیئر کیں۔
میرینز میں سے ایک کے والد ڈیرن ہوور نے کہا کہ ان کے بیٹے کے قاتل کی موت سے بہت کم سکون ملا ہے۔ ’چاہے کچھ بھی ہو، یہ ٹیلر کو واپس نہیں لائے گا اور میں یہ بات سمجھتا ہوں۔‘
ڈیرن نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک فون کال میں کہا ’ہم صرف سچائی چاہتے ہیں اور ہم اسے حاصل نہیں کر رہے۔ یہ مایوس کن حصہ ہے۔‘
ڈیرن نے مزید کہا کہ انہوں نے اور ان کے بیٹے کی والدہ کیلی ہینسن نے گذشتہ ڈیڑھ سال بیٹے کی موت کے غم میں گزارے ہیں اور واپس زندگی میں آنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ سے جواب دہی کی دعا کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرینز نے انہیں صرف محدود معلومات فراہم کیں اور داعش کے رہنما کی شناخت یا ان کی موت کے حالات نہیں بتائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہوور گولڈ سٹار کے 12 خاندانوں کے ایک گروپ میں شامل ہیں جو بم دھماکے کے بعد سے رابطے میں ہیں، ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں اور پیغام رسانی کے ذریعے معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
یہ چیٹ گروپ دھماکے میں مارے جانے والے ایک میرین لانس سی پی ایل کی والدہ چیرل ریکس نے بنایا تھا۔
ریکس نے اے پی کو بتایا کہ انہیں چیٹ گروپ کے ذریعے مطلع کیا گیا کیونکہ وہ امریکی فوجی حکام کی طرف سے سرکاری تصدیق کے منتظر تھیں۔
امریکی حکام نے انٹیلی جنس جمع کرنے میں حساسیت کی وجہ سے بہت سی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔
انتظامیہ کے اہلکار نے کہا کہ یہ ان کی ’اخلاقی ذمہ داری‘ ہے کہ وہ متاثرین کے اہل خانہ کو بتائیں کہ ’ماسٹر مائنڈ‘ اور ’ایئرپورٹ حملے کا سب سے زیادہ ذمہ دار شخص‘ کو مار دیا گیا۔
کئی حکام نے کہا کہ امریکہ نے اس قتل میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور طالبان کے ساتھ بالکل بھی رابطہ نہیں کیا۔
انتظامیہ کے اہلکار نے طالبان کی کارروائی کو ’اہم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو اس آپریشن کے بارے میں صرف اپنی انٹیلی جنس صلاحیتوں کے ذریعے معلوم ہوا۔