جنگی جرائم کیا ہیں اور کیا اسرائیل ان کا مرتکب ہوا؟

آج کل خبروں میں جنگی جرائم اور جینیوا کنونشن کا بہت ذکر ہو رہا ہے، ایسے میں بہت سے ذہنوں میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ ان کا مطلب کیا ہے؟

قدیم زمانے میں جنگوں کے دوران اور ان کے بغیر بھی انسان پر ظلم و ستم روا سمجھا جاتا تھا، اور عالمی طور پر کوئی ایسا قانون یا دستور موجود نہیں تھا جس سے انسانی حقوق کا تحفظ ہو سکے۔

مختلف مذاہب میں دشمن ملک کے عام شہریوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کی تلقین کی گئی ہے، مگر جب دو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان جنگ ہو تو ایسی دنیا میں ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ ہی کا اصول رائج تھا۔

19ویں صدی میں یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ متفقہ طور پر ایسے بین الاقوامی قوانین طے کیے جائیں جن کی پابندی سب ملکوں پر لازمی ہو۔

اس سلسلے میں 20ویں صدی میں کئی بین الاقوامی قوانین وضع کیے گئے، جن میں سے ایک جینیوا کنونشنز کہلاتا ہے۔

یہ ایسے قوانین ہیں جو صرف مسلح تنازعات کے وقت لاگو ہوتے ہیں اور ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو جنگ میں حصہ نہ لے رہے ہوں۔

اب آتے ہیں اسرائیل کی غزہ پر بمباری کی طرف۔ برطانیہ میں فلسطین کے سفیر حسام زملط نے کہا ہے کہ بین الاقوامی فوج داری عدالت کو غزہ پر اسرائیل کے محاصرے کی تحقیقات کرنی چاہییں۔

حسام نے شہری علاقوں پر اسرائیلی بمباری اور سفید فاسفورس کے استعمال کو جنگی جرم قرار دیا۔

منگل کی رات جنوبی غزہ کے ایک ہسپتال پر حملے میں سینکڑوں افراد کی موت واقع ہو گئی۔

سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد اب تک اسرائیل کے حملوں میں ہزاروں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کے ملازمین، طبی عملہ اور ریسکیو ٹیموں کے ارکان بھی مارے گئے ہیں۔

جنگی جرائم کیا ہیں؟

جینیوا کنونشن 1949 میں طے پایا تھا جن پر اب تک 196 ملک دستخط کر چکے ہیں۔

تاہم ہر ملک نے ہر شق پر دستخط نہیں کیا اور اکثر ملکوں نے اپنی من مانی سے کچھ شقوں تسلیم کیں اور کچھ نہیں۔

معاہدے کی شق آٹھ کے مطابق: ’جان بوجھ کر شہری آبادی کے خلاف حملوں کی ہدایت کرنا یا انفرادی شہریوں کے خلاف، جو دشمنی میں براہ راست حصہ نہیں لے رہے ہیں،‘ بھی جنگی جرم ہے۔

شق آٹھ بی تین کہتی ہے: جان بوجھ کر اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انسانی امداد یا امن مشن میں شامل اہلکاروں، تنصیبات، مواد، یونٹوں یا گاڑیوں کے خلاف حملوں کی ہدایت کرنا، جب کہ وہ مسلح تنازعات کے بین الاقوامی قانون کے تحت شہریوں یا سویلین اشیا کو دیے گئے تحفظ کے حق دار ہوں۔‘

آرٹیکل آٹھ کی شق سات اے کے مطابق: غیر قانونی منتقلی یا ملک بدری جنگی جرم کے زمرے میں آتی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی نصف آبادی کو اپنا علاقہ چھوڑنے کی وارننگ دے رکھی ہے۔

بین الاقوامی قانون کا تقاضا ہے کہ ضرورت مند شہریوں کے لیے انسانی امداد کی تیز رفتار اور بلا روک ٹوک منتقلی کی اجازت ہو۔

اس میں خوراک، پانی، طبی سامان، ایندھن اور زندگی کے لیے ضروری دیگر سامان اور خدمات شامل ہیں۔ شہریوں کو بھوک میں مبتلا کرنا بھی جنگی جرم ہے۔

اس کے باوجود اسرائیل نے گذشتہ ہفتے اسرائیلی سرحدی علاقوں پر حماس کے حملوں کے جواب میں غزہ کا غیر قانونی طور پر مکمل محاصرہ کر رکھا ہے اور علاقے میں بجلی، خوراک، پانی یا ایندھن کا داخلہ بند کر دیا ہے۔

یہ ایک اور جنگی جرم ہے۔ اسرائیل نے ان تمام جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور مسلسل کر رہا ہے۔

سفید فاسفورس

ایک اور معاملہ سفید فاسفورس کے استعمال کا ہے۔

اسرائیل ویسے تو غزہ پر ہر قسم کے ہتھیاروں سے گولہ باری کر رہا ہے، لیکن اس میں ایک ہتھیار ایسا ہے جس پر انسانی حقوق کے مختلف اداروں کو سب سے زیادہ اعتراض ہے۔

یہ ہتھیار سفید فاسفورس کے بم ہیں۔ انسانی حقوق کے بڑے ادارے ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل دونوں ہی نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر حالیہ حملوں کے دوران یہ ہتھیار استعمال کیے۔

ہیومن رائٹس واچ نے جمعرات کو کہا کہ اس نے ویڈیوز اور انٹرویوز کی مدد سے شواہد اکٹھے کیے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ شہر میں دو جگہوں پر سفید فاسفورس استعمال کیا۔

اس کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کرائسس ایویڈنس لیبارٹری نے بھی شواہد فراہم کیے کہ اسرائیلی ڈیفنس فورس نے غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں فاسفورس بم برسائے۔

ایمنسٹی نے M825 اورM825A1  گولوں کی تصویریں دکھائی جو امریکی محکمۂ دفاع کا سفید فاسفورس پر مبنی اسلحے کا شناختی کوڈ ہے۔

سفید فاسفورس بطور ہتھیار کب کب استعمال ہوا؟

فاسفورس ایک عرصے سے جنگی مقاصد کے لیے بطور ہتھیار اور دھواں پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

برطانیہ اور امریکہ نے پہلی عالمی جنگ کے دوران فاسفورس کے گرینیڈ، موٹر اور راکٹ تیار کیے تھے، جنہیں بڑے پیمانے پر مخالف فوج پر برسایا گیا۔

یہی ہتھیار دوسری عالمی جنگ میں بھی استعمال ہوئے۔ اس کے بعد 1960 کی دہائی میں امریکہ نے فاسفورس بم ویت نام میں اور 2004 میں عراق میں استعمال کیے۔

2009 میں امریکہ نے الزام لگایا کہ طالبان نے افغانستان میں شہریوں پر فاسفورس بم برسائے۔ اس کے علاوہ شام کی خانہ جنگی میں بھی یہ ہتھیار استعمال ہونے کی اطلاعات ہیں۔

2022 میں یوکرین کے صدر زیلینسکی نے نیٹو سمٹ کو بتایا تھا کہ روس نے یوکرین کے خلاف فاسفورس بم استعمال کیے۔

سفید فاسفورس ہے کیا؟

فاسفورس ایک کیمیائی عنصر ہے جس کی علامت P ہے اور اس کا ایٹمی نمبر 15 ہے۔ اس کی دو قسمیں ہوتی ہیں، سرخ فاسفورس اور سفید فاسفورس۔

یہ کئی معدنیات میں وسیع پیمانے پر پایا جاتا ہے، مگر خالص حالت میں نہیں۔ یہ عنصر زندگی کے لیے ضروری ہے اور ڈی این اے، ہڈیوں وغیرہ کا لازمی جزو ہے۔

سفید فاسفورس موم کی طرح کا مواد ہے، جس کی بو لہسن کی طرح ہوتی ہے اور یہ یا تو بےرنگ یا پھر ہلکا پیلا ہوتا ہے۔

خالص فاسفورس ہوا میں موجود آکسیجن کے ساتھ مل کر فوراً جل اٹھتا ہے جس سے تیز روشنی نکلتی ہے اور دھواں پیدا ہوتا ہے۔ جنگوں کے دوران یہ دھواں فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

سفید فاسفورس کام کیسے کرتا ہے؟

زمین پر گر کر سفید فاسفورس شدید آگ بھڑکا دیتا ہے جس کا درجۂ حرارت 800 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے مقابلے پر لکڑی کی آگ کا درجۂ حرارت 600 ڈگری کے لگ بھگ ہوتا ہے۔

 یہ مواد عمارتوں، کپڑوں اور جلد پر چپک جاتا ہے جس کی وجہ سے اس سے پیدا ہونے والی آگ زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیوں کہ اسے بجھانا بےحد مشکل ہوتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ڈاکٹر رولا ہولام نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’یہ ہر چیز کو خاکستر کر دیتا ہے۔ اگر یہ دھاتوں تک کو جلا ڈالتا ہے تو اس کے آگے انسانی گوشت کی کیا حیثیت ہے؟‘

کیا سفید فاسفورس کا استعمال جنگی جرم ہے؟

بین الاقوامی قانون کے تحت سفید فاسفورس ممنوع کیمیائی ہتھیاروں کے زمرے میں نہیں آتا کیوں کہ یہ مواد کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کا حصہ نہیں ہے۔

تاہم اگر سفید فاسفورس کو بمباری کر کے ایسے علاقوں پر برسایا جائے جہاں عام شہری رہتے ہوں تب یہ غیرقانونی بن جاتا ہے۔

بین الاقوامی قانون کے تحت جنگ کے دوران کسی بھی فوجی دھڑے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ ہتھیار صرف عسکری تنصیبات یا مسلح دشمن پر استعمال کیا جا رہے ہوں۔

چونکہ غزہ کا شمار دنیا کے گنجان آباد ترین علاقوں میں ہوتا ہے، اس لیے اگر اسرائیل یہ دعویٰ کرے کہ اس نے یہ ہتھیار حماس کے جنگجوؤں کے خلاف استعمال کیا تب بھی وہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں قابلِ قبول نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے سفارش کی ہے کہ سفید فاسفورس کو کیمیائی ہتھیاروں کے پروٹوکول تھری میں شامل کیا جائے، تاہم ادارے کے مطابق گنتی کے چند ملک ہیں جو ایسا نہیں ہونے دے رہے۔

ادارے نے مطالبہ کیا ہے کہ اس ہتھیار کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں کے پروٹوکول تھری کو 130 ملکوں نے قبول کیا ہے یا اس پر دستخط کیا ہے مگر ان میں اسرائیل شامل نہیں۔ یہ پروٹوکول آتشیں ہتھیاروں سے متعلق ہے۔

پروٹوکول تھری کے تحت شہری علاقے پر آتشیں ہتھیار استعمال نہیں کیے جا سکتے، نہ ہی اس قسم کا کوئی ہتھیار ہوا سے کسی ایسے فوجی علاقے پر پھینکا جا سکتا ہے جہاں عام شہریوں کی موجودگی کا اندیشہ ہو۔

اس تعریف کی رو سے غزہ کی شہری آبادی پر سفید فاسفورس کا استعمال ممکنہ طور پر جنگی جرم کے تحت آ سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا