اس ہفتے کے آخر میں پریمیئر لیگ فٹ بال عالمی وقفے کے بعد دوپہر کے کھانے کے وقت مرسی سائیڈ ڈربی (لیورپول اور ایورٹن فٹ بال کلبوں کے درمیان میچ) کے ساتھ دوبارہ شروع ہوگی۔
تمام میچوں سے قبل ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی اور کھلاڑی اسرائیل اور غزہ میں جان سے جانے والوں کے احترام میں بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں گے۔
میں اس ہفتے اپنی فٹ بال ٹیم ٹوٹنہم ہاٹ سپر کے بارے میں ایک مضمون پڑھ رہا تھا۔ پیر کی رات ہمارے فلہم کے خلاف میچ سے قبل اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات کو کس طرح اجاگر کیا جائے اور کیا اسرائیلی جھنڈوں یا فلسطینی پرچموں کی اجازت دی جائے گی۔
ٹوٹنہم مضبوط یہودی ورثے والا کلب ہے۔ پوری بات یہ ہے کہ میرے پاس سیزن ٹکٹ ہے اور میں ایک یہودی ہوں۔
اور سچ کہوں تو میں فٹ بال ایسوسی ایشن یا کلب کی زیادہ پروا نہیں کرتا۔ میں اس ڈراؤنے خواب سے نکلنے کے لیے کھیل دیکھنے جاؤں گا اور اپنی فٹ بال ٹیم کی حمایت میں آواز بلند کروں گا اور جب کوئی فیصلہ ہمارے خلاف جائے گا تو شاید ریفری پر چیخوں گا۔
میں سینیما جا کر کھڑا نہیں ہوتا یا کسی سیاسی مقصد کے لیے سر نہیں جھکاتا۔ میں نگورونو کاراباخ جنگ کے متاثرین کو یاد کرنے کے لیے باربی نامی فلم دیکھنے نہیں جاتا۔ تو پھر فٹ بال کے کھیل کو کسی بھی اور ہر اس مقصد کے بارے کوئی رائے کیوں رکھنے چاہیے جو سامنے آتا ہے؟
ہم ایک سیکنڈ کے لیے تصور کرتے ہیں کہ ٹوٹنہم نے سات اکتوبر کے خوف ناک واقعات کی بنیاد پر اسرائیلی متاثرین کو یاد کرنے کا فیصلہ کیا۔
اور ایک بات ہے کہ جس ٹیم کے خلاف ہمارا مقابلہ ہے وہ نیو کاسل یونائیٹڈ ہے جو سعودی ملکیت ہے اور وہ غزہ میں جان سے جانے والے تمام افراد کی موت کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔
تو پھر کیا؟ کیا یہ ٹوٹنہم ہاٹ سپر سٹیڈیم میں اسرائیلی اور فلسطینی شہریوں کے درمیان پراکسی مقابلہ ہے؟ یہ بات مضحکہ خیز ہے۔ یہ صرف فٹ بال کا کھیل ہونا چاہیے۔
یہ سب احتجاج اور نسلی پرستی کے خلاف تحریک ’بلیک لائیوز میٹر‘ سے شروع ہوا۔ کیوں؟ کیوں کہ یہ سیدھا سادہ معاملہ تھا۔ نسل پرستی بری ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے۔ میں اس وقت بی بی سی کا شمالی امریکہ کا ایڈیٹر تھا، جب اس برے اور نسل پرست پولیس اہکار نے جارج فلوئیڈ کا گلا گھونٹ دیا اور نو منٹ تک ان کی گردن دبائے رکھی۔
میں نے اس واقعے کے بعد ہونے والی بدامنی اور امریکہ بھر میں ہونے والے مظاہروں کے بارے میں رپورٹ کیا۔ اس سے امریکہ میں نسل پرستی کے مسائل پر جو روشنی پڑی وہ بڑی تیز تھی۔
یہ درست ہے کہ اس واقعے نے دوسرے ممالک کو اپنا ریکارڈ دیکھنے پر مجبور کر دیا اور اس طرح ہر فٹ بال میچ کے کھلاڑیوں کے لیے احتجاج رواج بن گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسا کرنا کسی حد تک پریشان کن اور قدرے بے ہودہ ہو گیا۔ آپ احتجاج کرنا کب بند کرتے ہیں؟ اور اس کا درحقیقت کتنا اثر ہوتا ہے؟
اس کے علاوہ یہ سب کچھ تھوڑا سا رسمی بن گیا۔ جب احتجاج بے ساختہ ہوتا ہے تو اس میں طاقت ہوتی ہے۔ یہ لمحہ اس وقت آیا جب امریکی فٹ بال ٹیم سان فرانسسکو فورٹی نائنرز کے کوارٹر بیک کولن کیپرنک اور کچھ دیگر سیاہ فام کھلاڑیوں نے 2016 میں قومی ترانہ بجنے کے دوران احتجاج کیا۔
ایک ماہ بعد ڈیپ ساؤتھ میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریباً مکمل طور پر سفید فام ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے پوچھا کہ انہیں احتجاج کرتا ’دیکھنے کے لیے ہمارے جیسے لوگوں کو رقم کیوں خرچ کرنی پڑتی ہے؟‘
اس طرح نسل پرستی کوئی ڈھکی چھپی شے نہیں تھی۔ ٹرمپ نے کہا کہ ان سب کو برطرف کر دینا چاہیے اور نتیجے کے طور پر اس کے بعد کیپرنک این ایف ایل (نیشنل فٹ بال لیگ) نہیں کھیلے۔
اگرچہ کم از کم ایک مسئلے کے طور پر یہ معاملہ بالکل واضح تھا۔ (ایسا کہا جائے تو)۔ لیکن سیاست شاذ و نادر ہی سیدھی سادی ہوتی ہے۔ جیسا کہ فٹ بال ایسوسی ایشن کو گذشتہ ہفتے ویمبلے سٹیڈیم کو روشن کرنے کے معاملے میں پیدا ہونے والے تنازعے کی شکل میں اس بات کا پتہ چلنا تھا۔
مسائل شاذ و نادر ہی سادہ ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فٹ بال حکام چاہتے ہیں کہ سب کچھ خوش یا اداس چہرے کی ایموجی تک محدود ہوجائے۔
اگر اچھی صورت حال ہو تو فٹ بال کے میدان کے وسط میں بنے دائرے کے ارد گرد موجود کھلاڑی تالیاں بجائیں۔ اگر حالات برے ہوں تو کھلاڑی اداس چہروں کے ساتھ خاموش کھڑے ہوں۔
گذشتہ سال قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کو ہی لے لیجیے۔ فٹ بال ایسوسی ایشن ہم جنس پرستوں کے حقوق کے بارے میں خلیجی ریاست کے مؤقف پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا چاہتی تھی۔
اس لیے کھلاڑیوں نے بازو پر سات رنگوں والی وہ پٹی باندھنی تھی جس پر ’ون لو‘ لکھا ہوا تھا۔ جب فیفا نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے تو ایسوسی ایشن نے اس کی بات مان لی۔
لیکن فٹ بال ایسوسی ایشن اس طرح کے اشارے دے کر کیا کر رہی تھی کہ گویا انگلش فٹ بال آزاد خیال، روادار اور ہم جنس پرستوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو؟ پریمیئر لیگ میں کھیلنے والا کھلم کھلا ایک بھی ہم جنس پرست فٹ بالر نہیں۔ ایک بھی نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زندگی پیچیدہ ہے۔ میں واقعی یہ جاننا چاہتا ہوں کہ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک مشرق وسطیٰ کی صورت حال کے بارے میں کیا سوچتے ہیں (اگرچہ فٹ بال کے بارے میں ہمارے لیے ان کی رائے کی اہمیت نہیں کہ ہمارا سکور 4-3-3 یا 4-2-3-1 ہونا چاہیے)۔
لیبر پارٹی کے رہنما کیئر سٹارمر بھی۔ لیکن ہمارے سینٹر فارورڈ، سن ہیونگ من؟ اتنا زیادہ نہیں۔ مجھے اس بات کی بھی پروا نہیں کہ ہمارے مینیجر اینج پوسٹکوگلو کیا سوچتے ہیں۔ اور میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔ صرف اپنے شعبے تک کیوں نہ محدود رہا جائے؟
فٹ بال ہماری ثقافتی زندگی کا ایک بڑا حصہ ہے اور یہ کوئی بری بات نہیں کہ فٹ بالرز کو اس کردار سے آگاہ ہونا چاہیے جو وہ ادا کرتے ہیں۔
اور یہ کہ بہت سے لوگوں کے لیے وہ مثال ہیں۔ رحیم سٹرلنگ اور مارکس رشفرڈ جیسے کھلاڑیوں نے میدان سے باہر شاندار کام کیا لیکن وہ فٹ بالر ہیں سیاست دان نہیں۔ اور فٹ بال ایسوسی ایشن وہ ادارہ ہے جو فٹ بال کی نمائندگی کرتا ہے۔
بانڈ مارکیٹ، افراط زر کی شرح اور ہسپتالوں میں علاج کے منتظر مریضوں کی فہرستوں یا غزہ پر مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔
یہ بہت قابل ستائش بات ہے کہ ہمارے کھلاڑی اور کلب اپنی مقامی برادریوں میں منصوبوں کی حمایت کرنے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔
بہت اچھی بات ہے کہ ہم اس ملک کی خدمت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اتوار کو ان کی یاد میں دن مناتے ہیں۔
مجھے یہ بہت اچھا لگا جب ہم نے شاہ کی تاج پوشی کے دن ٹوٹنہم ہاٹ سپرز کے میچ میں ’خدا بادشاہ کو محفوظ رکھے‘ گایا۔
لیکن فٹ بال کی طرف جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ مشکل سے کوئی میچ ہو رہا ہے کہ اگر ہم کبھی اِس معاملے اور کبھی اُس معاملے کو اجاگر کرنے کے لیے خاموشی اختیار نہ کریں۔ ایسا فٹ بال کے ساتھ ہی کیوں ہے؟
فٹ بال کے معاملے میں ریا کاری کا بہت زیادہ مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ احتجاج کے طور پر گھٹنوں کے بل بیٹھنے کی بجائے فٹ بال ایسوسی ایشن اور کلب کوئی مؤقف اختیار کیوں نہیں کرتے؟ عملی طور پر یہ احتجاج ہی ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent