انڈیا میں ’ریاستی حملہ آوروں‘ پر ایپل الرٹ کی تحقیقات کا آغاز

حکمراں بی جے پی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ایک بڑا تنازع اس وقت شروع ہوا جب کئی ممتاز سیاست دانوں کے آئی فونز پر خودکار پیغامات ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔

تمل ناڈو کے وزیر اعلی ایم کے سٹالن، کانگریس پارٹی کے مرکزی رہنما راہل گاندھی، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور کانگریس پارٹی کی سینئر رہنما سونیا گاندھی 18 جولائی 2023 کو بنگلورو میں اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں شریک ہیں (موہن کمار / اے ایف پی)

انڈیا میں حکومت نے آئی فون بنانے والی امریکی کمپنی ایپل کی طرف سے بھیجے گئے ان موبائل فون الرٹس کی تحقیقات کا آغاز کیا ہے جس میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے کئی سیاست دانوں کو ’سٹیٹ سپانسرڈ اٹیکرز‘ کے خلاف خبردار کیا گیا ہے۔

انڈیا کے ایک درجن سرکردہ سیاست دانوں کے فون پر آنے والے انتباہی پیغامات نے انتخابات سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندو قوم پرست حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ایک تنازع کو جنم دیا ہے۔

انڈیا کے مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر اشونی ویشنو نے کہا کہ حکومت الزامات کی تہہ تک جائے گی کیوں کہ وہ ایسے معاملات کو ’سنجیدگی‘ سے لیتی ہے۔

حکمراں بی جے پی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ایک بڑا تنازع اس وقت شروع ہوا جب کئی ممتاز سیاست دانوں کے آئی فونز پر خودکار پیغامات ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔

اپوزیشن جماعتوں کے سیاست دانوں نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان کی ڈیوائسز کو ہیک کرنے اور ان کی جاسوسی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کے پیغام میں تحریر ہے کہ ’اگر آپ کی ڈیوائس کو ’سٹیٹ سپانسرڈ اٹیکرز‘ نے متاثر کیا ہے تو وہ آپ کے حساس ڈیٹا، مواصلات یا یہاں تک کہ کیمرے اور مائیکروفون تک ریموٹ رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔‘

سیاست دانوں کی جانب سے ایکس پر شیئر کیے گئے سکرین شاٹس کے مطابق آئی فونز پر موصول ہونے والے الرٹ میں مزید کہا گیا: ’اگرچہ یہ ممکن ہے کہ یہ غلط انتباہ ہو لیکن براہ کرم اس وارننگ کو سنجیدگی سے لیں۔‘

جن سیاست دانوں کو الرٹ موصول ہوا ان میں اپوزیشن کے وہ ارکان بھی شامل ہیں جو حکمران بی جے پی کے سب سے سخت ناقد رہے ہیں۔ ان میں ترنامول کانگریس کی رہنما مہوا موئترا، مسلم قانون ساز اسدالدین اویسی، اور کانگریس پارٹی کے ششی تھرور، پون کھیر اور سپریا شرینے شامل ہیں۔

ایک پریس کانفرنس کے دوران مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے مودی حکومت پر حزب اختلاف کے سینیئر سیاست دانوں کے موبائل فون ہیک کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ ’مجرموں اور چوروں کا کام‘ ہے۔

راہل گاندھی نے مزید کہا کہ ’یہ واضح طور پر گھبراہٹ کی علامت ہے۔  یہ ایک شخص نہیں، پوری اپوزیشن کی آواز ہے۔‘

مرکزی وزیر ویشنو نے کہا کہ حکومت نے ایپل سے اس معاملے کی تحقیقات میں شامل ہونے کو کہا ہے۔ انہوں نے حزب اختلاف کی پارٹیوں پر حملہ کرتے ہوئے انہیں ’ملک کے عادت سے مجبور ناقدین‘ قرار دیا۔

دوسری جانب ایپل کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ اطلاعات ان معلومات پر مبنی ہو سکتی ہیں جو 'نامکمل یا ادھوری' ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایپل کے کچھ تھریٹ نوٹیفیکیشنز شاید غلط الارم یا کچھ حملوں کے پتہ نہ چل سکنے کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔

ٹیکنالوجی کمپنی نے اس تنازع کے دوران اپنا بیان شیئر کیا ہے جس کے مطابق ’ایپل اپنے تھریٹ نوٹیفیکیشنز کو کسی مخصوص سٹیٹ سپانسرڈ اٹیکرز سے منسوب نہیں کرتا۔ سٹیٹ سپانسرڈ اٹیکرز ویل فنڈڈ اور سوفیسٹیکیٹڈ ہوتے ہیں اور ان کے حملے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’اس طرح کے حملوں کا پتہ لگانے کا انحصار تھریٹ انٹیلی جنس سگنلز پر ہوتا ہے جو اکثر نامکمل اور ادھورے ہوتے ہیں۔‘

دی انڈپینڈنٹ کو دیے گئے ایک بیان میں ایپل کے ترجمان نے کہا کہ انہوں نے ان افراد کو ’تھریٹ نوٹیفیکیشنز‘ بھیجے ہیں جن کے اکاؤنٹس تقریباً 150 ممالک میں ہیں لیکن انہوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ آیا ان سے انڈین حکومت کے حکام نے رابطہ کیا ہے یا نہیں۔‘

کانگریس پارٹی کے ترجمان جیرام رمیش نے ایپل کی اس وضاحت کو سکیورٹی کی خلاف ورزی کا ’ دیر سے کیا گیا اقرار‘ قرار دیا۔

اس دوران انڈیا کے کئی سیاست دانوں اور سیاسی مبصرین نے ایکس پر ایپل الرٹس کے سکرین شاٹس شیئر کیے۔

ایک اور اپوزیشن جماعت ’عام آدمی پارٹی‘ کے رکن پارلیمان راگھو چڈھا نے کہا کہ انہیں بھی الرٹ موصول ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پیغامات اس وقت موصول ہو رہے ہیں جب انڈیا کے قومی انتخابات میں چند ماہ رہ گئے ہیں۔

ان کے بقول: ’اسے اپوزیشن پر وسیع تر حملوں کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے جنہیں تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعے مسلسل جبر، سیاسی طور پر محرک مجرمانہ مقدمات اور قید کا سامنا ہے۔‘

حکومت کی مخالفت کرنے والے شیو سینا پارٹی کے ایک دھڑے کی رکن پرینکا چترویدی نے بھی کہا کہ انہیں یہ پیغام موصول ہوا ہے۔

پرینکا نے مزید کہا: ’مزے کی بات ہے کہ صرف اپوزیشن جماعتوں کو ہی نگرانی والے پیغامات موصول ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ الگورتھم بھی اپنی پسند کے حوالے سے سلیکٹیو تھا۔‘

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب حکمراں بی جے پی حکومت پر جاسوسی کا الزام لگایا گیا ہو۔

2021 میں انڈیا ان خبروں سے ہل گیا تھا کہ حکومت نے راہل گاندھی سمیت متعدد صحافیوں، سماجی کارکنوں اور سیاست دانوں کی مبینہ طور پر جاسوسی کے لیے پیگاسس سپائی ویئر کا استعمال کیا تھا۔

2019 میں واٹس ایپ نے ایک مقدمے میں الزام لگایا تھا کہ اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کی طرف سے تیار کردہ نگرانی کا سافٹ ویئر پیگاسس انڈین صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

اسرائیلی این ایس او گروپ نے تسلیم کیا کہ وہ خصوصی طور پر سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔

حکومت نے نگرانی کے مقاصد کے لئے انڈیا یا اس کی کسی بھی ریاستی ایجنسی کو پیگاسس سپائی ویئر کے حصول کے بارے میں پوچھ گچھ کا جواب دینے سے گریز کیا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا