پاکستان میں تعلیمی بورڈز کے درمیان ہم آہنگی کے ذریعے تعلیمی، امتحانی اور طلبہ کی استعداد جانچنے کے طریقہ کار کے معیار کو بہتر بنانے کی غرض سے 1972 میں قائم کیے گئے انٹر بورڈز کوآرڈینیشن کمیشن (آئی بی سی سی) نے طلبہ کے لیے کسی ایک مضمون کے پرچے یا پورے امتحان میں کامیاب (یا پاس) ہونے کے لیے کم از کم 40 فیصد نمبر حاصل کرنا ضروری قرار دیا ہے۔
آئی بی سی سی کے سربراہ ڈاکٹر غلام علی نے لاہور میں انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار فاطمہ علی کو بتایا کہ نئے فیصلے کا اطلاق سال رواں کے دوران ہونے والے نویں اور 11ویں جماعت کے امتحانی نتائج، جن کا اعلان 2024 میں ہو گا، پر لاگو ہو گا، جبکہ آئندہ برس سے 10ویں اور 12ویں کے امتحانات میں بھی اسی فارمولے پر عمل ہو گا۔
پاکستان میں رائج نظام کے تحت سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری امتحانات میں مجموعی طور پر یا انفرادی مضمون میں کامیابی کا کم از کم معیار 33 فیصد نمبروں کا حصول ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں کسی امتحان میں کامیابی کے لیے 33 فیصد نمبروں کا حصول کب، کیسے اور کیوں نافذ کیا گیا؟
33 فیصد نمبر کہاں سے آئے؟
33 فیصد نمبروں کی حقیقت جاننے کے لیے پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل کے زمانے میں جانا پڑے گا۔
مشترکہ ہندوستان میں 1857 میں ہونے والی ناکام جنگ آزادی یا غدر (Mutiny) کے بعد اس ایشیائی ملک پر سات سمندر پار سے آئے ہوئے انگریز کا باقائدہ تسلط قائم ہو گیا تھا۔
انگریز سرکار کی زیر نگرانی اگلے ہی برس یعنی 1858 میں ہندوستان میں 10ویں جماعت کے امتحانات کا انعقاد کیا گیا، جس سے قبل متعلقہ اہلکار طلبہ کے پاس ہونے کے معیار سے متعلق مخمصے کا شکار تھے۔ اس الجھن کو دور کرنے کی غرض سے انگریز سرکار نے تاج برطانیہ سے مشورہ مانگا۔
اس وقت برطانیہ میں امتحانات میں کامیابی کے لیے کم از کم 65 فیصد نمبر حاصل کرنا ضروری ہوا کرتا تھا۔
برطانوی لارڈز کا خیال تھا کہ ہندوستان میں بسنے والے انسان برطانیہ کے لوگوں سے ذہانت کے لحاظ سے نصف صلاحیتوں کے حامل تھے اور اسی منطق کے تحت انہوں نے اپنی اس ایشیائی کالونی میں امتحانات میں کامیابی کے لیے اپنے ملک سے نصف نمبر رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اس طرح انگریز سرکار نے ہندوستان میں کسی امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے طلبہ کے لیے کم از کم 32.5 فیصد (65 فیصد کے نصف) نمبر حاصل کرنا ضروری قرار دیا۔
بعد ازاں امتحانی پرچوں میں نمبروں کا حساب لگانے میں آسانی کی غرض سے انگریز سرکار نے 1861 میں 32.5 کو (راؤنڈ اپ کرتے ہوئے) 33 کر دیا۔
امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے یہی وہ کم از کم 33 فیصد نمبر ہیں، جو مشترکہ ہندوستان کی تقسیم اور انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی پاکستان میں اب تک رائج ہیں اور جسے آئی بی سی سی نے بڑھا کر 40 فیصد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
دوسرے ممالک میں پاس مارکس
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں امتحانات میں کامیابی کے لیے کم از کم نمبر سب سے کم ہیں۔
امتحانات کی اہمیت
امتحانات کو طلبہ کی استعداد اور قابلیت کے تعین کا بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم یہ ایک متنازع طریقہ بھی ہے، جسے بعض اساتذہ اور مبصرین گہرے اور کثیر جہتی علم کے بجائے محض یادداشت کو جانچنے کا طریقہ سمجھتے ہیں, جبکہ کچھ دوسروں کے خیال میں امتحانات کی اہمیت خود ان میں پوچھے گئے سوالات کے معیار اور انتخاب پر ہوتی ہے، جن میں یادداشت جانچنے کے علاوہ طلبہ کی مہارتوں اور سمجھ بوجھ کی جانچ بھی ہونا چاہیے۔
پاکستان میں 80 کی دہائی میں خصوصاً نویں اور 10ویں کلاسوں کے طلبہ کے لیے گائیڈز اور ٹیسٹ پیپرز کو عام کیا گیا، جن میں سوالات کے بنے بنائے اور تیار جوابات موجود ہوتے، جنہیں سٹوڈنٹس صرف یاد کر لیتے ہیں۔
رٹے کے ذریعے امتحانات میں نمبر حاصل کرنے کے طریقے کے عام ہونے کے بعد سے پاکستانی طلبہ میں تصورات کو سمجھنے کی عادت ختم ہو کر رہ گئی ہے اور اب محض نمبر حاصل کرنے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔
جدید دنیا میں بچوں سے تحریری امتحانات کے بجائے دوسرے طریقوں سے ان کی استعداد اور مہارت کو جانچا جاتا ہے۔
پاکستان میں تعلیمی بورڈز
پاکستان میں مجموعی طور پر 32 تعلیمی بورڈز ہیں، جن میں اسلام آباد میں ایک، پنجاب میں نو، سندھ میں چھ، خیبرپختونخوا میں آٹھ، بلوچستان میں تین اور آزاد جموں و کشمیر میں ایک بورڈ ہے۔
کراچی میں آغا خان تعلیمی بورڈ، آغا خان یونیورسٹی کراچی کے تحت کے ایک نجی بورڈ ہے، کے علاوہ باقی تمام تعلیمی بورڈ حکومت پاکستان کی ملکیت ہیں۔
ان کے علاوہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ایک ایک فنی تعلیمی بورڈز بھی موجود ہیں۔