امریکی جیل میں برسوں سے قید پاکستانی شہری عافیہ صدیقی سے ملاقات کے لیے ان کی بہن فوزیہ صدیقی امریکہ پہنچ چکی ہیں، جہاں ان کی ملاقات دو اور تین دسمبر کو طے ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے امریکہ میں سزا کاٹنے والی پاکستانی سائنس دان اور اپنی چھوٹی بہن عافیہ صدیقی سے رواں سال مئی میں 20 سال بعد امریکی شہر فورٹ ورتھ (ٹیکساس) میں واقع کارزویل جیل میں ملاقات کی تھی لیکن انہیں اپنی بہن سے گلے ملنے کی اجازت نہیں تھی کیوں کہ دونوں کے درمیان شیشے کی دیوار حائل تھی۔
عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوشاں عافیہ موومنٹ کے کراچی میں مقیم ترجمان محمد ایوب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دو اور تین دسمبر کو دونوں بہنوں کی ایک مرتبہ پھر جیل میں ملاقات ہو سکے گی، ہم عافیہ کی رہائی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اسی مقصد کے ساتھ فوزیہ صدیقی دوبارہ امریکہ پہنچی ہیں۔ سینیٹر مشتاق اور سینیٹر طلحہٰ بھی ڈاکٹر فوزیہ کے ساتھ ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فوزیہ چاہتی ہیں کہ اس مرتبہ ’انہیں اپنی بہن سے سوشل وزٹ کے مطابق ملنے کی اجازت دی جائے گی اور درمیان میں شیشے کی دیوار حائل نہیں ہو گی۔‘
مئی میں جیل میں ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی انڈپینڈنٹ اردو کو بتا چکی ہیں کہ امریکی جیل کے خصوصی سیل میں تین ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی ملاقات تین گھنٹے، دوسری دو اور تیسری ڈیڑھ گھنٹے کی رہی۔
محمد ایوب نے بتایا کہ ’ڈاکٹر عافیہ کو جیل قواعد کے مطابق حقوق حاصل کرنے کے لیے مقامی وکیل کی خدمات کے لیے بھی کوششیں کریں گی اور وہ امید کرتی ہیں کہ ہوسٹن میں پاکستانی قونصلیٹ عافیہ صدیقی سے ملاقات کے لیے سہولیات فراہم کرے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عافیہ موومنٹ کے ترجمان کے مطابق: ’عافیہ صدیقی کے امریکی وکیل کلائیو سمتھ افغانستان میں عافیہ کو قید کے دوران مظالم کے حوالے سے ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں۔ اس سے متعلق عدالت کو ابھی سرسری طور پر آگاہ کیا ہے۔‘
عافیہ صدیقی امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں ایک امریکی جیل میں 86 سال کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ امریکہ نے 2008 میں افغان صوبے غزنی سے انہیں گرفتار کر کے ان کے قبضے سے کیمیائی اجزا کی تراکیب اور کچھ تحریریں برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جن میں نیویارک حملے کا ذکر تھا۔
بعد ازاں 2010 میں انہیں امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے کے الزامات کے تحت 86 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
عدالتی کارروائی کے دوران عافیہ صدیقی کے وکلا کا موقف رہا ہے کہ تفتیشی عمل کے دوران بدحواسی میں ڈاکٹر عافیہ نے امریکی فوجیوں سے بندوق چھینی تھی اور اس کا دہشت گردی کے عمل سے کسی طرح کا واسطہ نہیں تھا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر پاکستانی قانون دان داؤد غزنوی نے ’عافیہ ان ہرڈ‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے، جس کے مطابق عافیہ کے افغانستان پہنچنے سے متعلق امریکہ کا بیانیہ تین قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔
1۔ خالد شیخ محمد کے بھتیجے عمار ال بلوچی سے عافیہ صدیقی کی شادی ہوئی اور عافیہ انہیں ڈھونڈنے افغانستان چلی گئیں۔
2۔ عافیہ افغانستان امریکہ کے خلاف جنگ لڑنے گئیں۔
3۔ عافیہ کے پاس کچھ ہتھیار، کیمیکلز اور چند دستاویزات تھے جنہیں وہ طالبان تک پہنچانے کے لیے افغانستان پہنچیں۔
عافیہ صدیقی کی بہن کی طرف سے حکومت پاکستان سے مسلسل یہ اپیل کی جاتی رہی ہے کہ وہ عافیہ کی رہائی کے لیے بھر پور کردار ادا کرے۔
پاکستان کی حکومت امریکہ میں اپنی سفارتی مشن کو اس ضمن میں ہر ممکن کوششوں کا بھی کہہ چکی ہے اور اس معاملے کو امریکہ کے سامنے بھی اٹھانے کا کہا جاتا رہا ہے۔