ملاقات نہیں، عافیہ کو وطن واپس لانا مقصد ہے: فوزیہ صدیقی

امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کے بعد فوزیہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک معصوم قیدی کی آزادی کا معاملہ ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کے ٹوٹے حصوں کو جوڑ سکے۔‘

فوزیہ صدیقی کے مطابق طبی مرکز میں ہونے کے باوجود عافیہ صدیقی کو کوئی سہولت حاصل نہیں ہے(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

امریکی ریاست ٹیکسس کی میڈیکل سینٹر جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے حال ہی میں تقریباً 20 سال بعد اپنی بہن سے جیل کے خصوصی سیل میں تین گھنٹے کی ایک طویل ملاقات کی۔

اس ملاقات کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے امریکہ میں موجود فوزیہ صدیقی سے رابطہ کیا اور ان سے اس ملاقات اور دورہ امریکہ کے حوالے سے کچھ سوالات پوچھے جن کے جواب ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

20 سال بعد عافیہ صدیقی سے ملاقات کیسے ممکن ہوئی؟

جواب: 20 سال یعنی دو دہائیاں بہت بڑی مدت ہوتی ہے۔ کاش کہ میں یہاں اپنی بہن کو لینے کے لیے آتی۔ ان کو قید خانے کی زنجیریں کھلوا کر گھر لے جاتی تب کچھ سکون اور شاید اطمینان ہوتا۔

لیکن یہ 20 سال بعد کیسے ممکن ہوا؟

جواب: اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے بہت ساتھ دیا اور انصاف کے فیصلے کیے۔ عدالت کے دباؤ میں ہمارے وزیراعظم اور دفتر خارجہ نے کوشش کر کے یہاں تک کیا ہے مگر یہ ادھوری کوشش ہے۔ عافیہ کو گھر واپس لانا ہمارا اصل مقصد ہے اور ہم اسی کی طرف کوشاں ہیں۔

آپ کے وکیل کلائیو اس سے پہلے بھی قیدیوں کی رہائی کی کوشش کرتے رہے ہیں، وہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے کتنے کامیاب ہو سکتے ہیں؟

جواب: دیکھیں جب نیت ہوتی ہے تو راستہ نکل آتا ہے۔ کلائیو ہمارے ساتھ ابھی شامل ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس کیس کے لیے ایک قانونی ٹیم تشکیل دی ہے۔ اگر اسلام آباد، پاکستان نے ہمارا ساتھ دیا تو عافیہ ضرور واپس آئیں گی۔

 عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے لیے کن کوششوں کی ضرورت ہے اور حکومت کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟

جواب: عافیہ پاکستانی شہری ہیں۔ یہ سب حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ عافیہ پر مقدمہ چلنا ہی نہیں چاہیے تھا، نہ انہیں اغوا ہونا چاہیے تھا۔ عافیہ ابھی قید میں ہیں تو انہیں قید نہیں ہونا چاہیے تھا۔

عافیہ کی حالت خراب سے خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ عافیہ پاکستانی شہری ہیں۔ جینیوا کنونشن کے تحت انہیں وہ تمام قانونی حقوق ملنے چاہییں جو کسی بھی قیدی کو دنیا میں حاصل ہوتے ہیں۔

ان میں قونصلر تک رسائی بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے قونصل جنرل بہت بڑا اور واضح کردار ادا کر سکتے ہیں۔

 آپ نے جیل میں ہونے والی ملاقات میں عافیہ صدیقی کو دیکھا تو ان کی حالت کیسی ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جواب: وہ حالت تو بیان سے باہر ہے۔ ناقابل بیان ہے اور میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے کہ میں اس کو بیان کروں۔ مگر میرے پاس ان کی حالت کے حوالے سے جو معلومات ہیں میں بہت جلد اس کے حوالے سے لکھوں گی۔ لیکن ان کی حالت ابھی بیان نہیں ہو سکتی۔ وہ احساس بیان نہیں ہو سکتے۔‘

عافیہ ایک طبی مرکز میں ہیں، کیا انہیں طبی سہولیات مل رہی ہیں؟

جواب: انہیں کچھ بھی نہیں مل رہا۔ کچھ بھی نہیں۔

وہ طبی مرکز میں ہیں کیا انہیں پھر بھی سہولت نہیں مل رہی؟

جواب: جی یہی تو ستم ظریفی ہے۔ کچھ بھی نہیں مل رہا۔ وہ بہت بری جگہ ہے۔

امریکی حکومت نے آپ کی ویزا درخواست منظور کر کے 20 سال بعد آپ کو ملاقات کی اجازت دی، کیا اس پر امریکی حکومت کی شکر گزار ہیں؟

جواب: جی میں امریکی حکومت کی بہت شکر گزار ہوں۔ میں تمام چھوٹی چھوٹی مہربانیوں پر ان کی بہت شکر گزار ہوں۔ مجھے صرف اپنی بہن کو شیشے پار نہیں دیکھنا بلکہ انصاف ہوتا بھی نظر آنا چاہیے، کیونکہ یہ معاملہ ایک معصوم قیدی کو آزادی دینے کا ہے تاکہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی کے بکھرے ہوئے حصوں کو جوڑ سکے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کی بات چل رہی ہے، کیا پاکستان میں قید شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کر کے عافیہ صدیقی کو واپس پاکستان بھجوایا جائے گا؟ کیا آپ کے علم میں ایسا کچھ ہے؟

جواب: مجھے اس بات کی پروا نہیں کہ یہ کس طرح ہو رہا ہے، مجھے صرف اس بات کی پروا ہے کہ یہ پاکستانی حکومت کی ذمہ داری اور فرض بنتا ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کو وطن واپس لائے۔

کیسے واپس لانا ہے یہ حکومت پاکستان کا مسئلہ ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے ہیں تو بہتر ہے وہ اس معاملے سے نکل جائیں اور ان لوگوں کو کام کرنے دیں جو یہ کر سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا