غزہ میں ’غلطی سے ہلاک‘ کیے جانے والے قیدی مدد مانگ رہے تھے: اسرائیلی فوج

اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف ہرزی حلوی نے قیدیوں کی موت کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جانے سے جانے والے اسرائیلی قیدی شمریز، الطلالکہ اور ہیم کے خاندانوں کی جانب سے اے کو فراہم کی جانے والی تصاویر (اے پی)

ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے بتایا ہے کہ جب غزہ میں اسرائیلی فوجیوں نے اسرائیلی قیدیوں کو ’عسکریت پسند سمجھ کر‘ گولی مار دی جس سے ان کی موت واقع ہو گئی تو اس وقت ایک اسرائیلی قیدی عارضی سفید پرچم لہرا رہے تھے اور دوسرے نے عبرانی زبان میں مدد کی اپیل کی تھی۔

ابتدائی تحقیقات کے مطابق شمالی غزہ کے علاقے شجاعیہ میں تین مرد قیدی نمودار ہوئے۔ تینوں کے جسم پر قمیض نہیں تھی۔ ان کے ہاتھوں میں ایک بڑی چھڑی تھی جس پر سفید کپڑا لگا ہوا تھا۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ قریب ہی موجود ایک فوجی نے فائرنگ کر دی جس سے گولیاں دو قیدیوں کو لگیں جبکہ زخمی ہونے والے تیسرے قیدی قریبی عمارت میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جہاں دیگر فوجیوں نے انہیں عبرانی زبان میں مدد کے لیے پکارتے ہوئے سنا۔ اس واقعے سے پریشان کمانڈر کی جانب سے فائرنگ روکنے کا حکم جاری کیے جانے سے پہلے ہی ایک اور فوجی نے انہیں مار دیا۔

اسرائیلی فوجی عہدے دار کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ قیدی، فوج نے جن کے نام  یوتم ہائم، سمر فواد التالکا اور ایلون شمریز بتائے، کو یا تو چھوڑ دیا گیا یا وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

تین قیدیوں کی موت کو ’ہولناک اور المناک‘ قرار دیتے ہوئے اسرائیلی فوجی عہدے دار نے صحافیوں کو بتایا کہ جو کچھ بھی ہوا وہ اسرائیلی فوج کے کام کے اصولوں کے خلاف تھا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ تقریباً یقینی طور پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

قیدیوں کی موت کی خبر کے بعد غزہ میں دیگر قیدیوں کے اہل خانہ نے فوری طور پر لڑائی کے خاتمے اور باقی قیدیوں کی رہائی یقینی بنانے کے معاہدے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ باقی بچ جانے والوں کے لیے ’ہر سیکنڈ اہمیت کا حامل ہے۔‘

ہفتے کو قیدیوں کے خاندانوں نے تل ابیب میں بڑی ریلیوں کی قیادت کی جس میں لوگوں نے ’اب ان سب کو (رہا کروایا جائے)‘ اور ’آپ انہیں بچا سکتے تھے‘ کے نعرے لگائے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ شہر میں اسرائیلی فوج کے مرکزی ہیڈ کوارٹر کے باہر غیر معینہ مدت تک احتجاج کریں گے ’جب تک کہ کابینہ قیدیوں کی رہائی کے لیے اسرائیلی منصوبہ پیش نہیں کرتی۔‘

جرمنی کی دہری شہریت رکھنے والے 57 سالہ راز بن امی، جو گذشتہ ماہ قطر کی ثالثی میں ہونے والے فائر بندی معاہدے کے تحت رہا ہونے والے قیدیوں میں شامل تھیں اور ان کے شوہر، اوہد اب بھی غزہ میں قید ہیں، نے ریلیوں سے خطاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کو رہا کیا گیا ہے انہوں نے خبردار کیا تھا کہ دیگر قیدیوں کو نادانستہ طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے کیوں کہ وہ گھمسان کی لڑائی کے قریب ہیں۔

انہوں نے کہا: ’10 دن پہلے میں نے کابینہ کے ارکان کو متنبہ کیا تھا کہ لڑائی قیدیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

’بدقسمتی سے میری بات ٹھیک تھی۔ صرف فوجی کارروائی سے ان (قیدیوں) کی زندگیاں نہیں بچیں گی۔ اسرائیل کو قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات ایک اور دور شروع کرنا ہوگا۔ قیدیوں کے بدلے قیدیوں کی واپسی فوری اور نازک معاملہ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قیدی بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور موت کے حقیقی خطرے میں ہیں۔ ہر دن، ہر گھنٹہ، ہر منٹ اہم ہے۔‘

اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ بتسیلم نے ایکس پر لکھا ہے کہ بین الاقوامی انسانی قانون ہتھیار ڈالنے والے اور سفید پرچم اٹھائے لوگوں کو گولی مارنے کی ممانعت کرتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ جنگجو ہیں یا نہیں۔ چاہے ان کی قومیت اور مذہب کچھ بھی ہو۔‘

اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کے سابق اہلکار اور انسانی حقوق کی اسرائیلی تنظیم ’بریکنگ دی سائلنس‘ کے رکن ایریل برنسٹین نے سوشل میڈٰیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ قیدیوں کو گولی مارنا، کام کے اصولوں کی خلاف ورزی کا دعویٰ ’غزہ میں فائرنگ کرنے کی پالیسی کے پیچھے کھڑے ہونے کی بجائے کمان کی طرف سے میدان میں موجود فوجی پر الزام عائد کرنے کی کوشش ہے۔‘

بیرونس سعیدہ وارثی نے کہا کہ اگر اسرائیل گولی مار کر تین قیدیوں کی جان لے سکتا ہے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ فلسطینی ہر روز کیا جھیل رہے ہیں۔

انہوں نے ایکس پر پوسٹ میں مزید کہا: ’بریکنگ دی سائلنس اور دیگر اسرائیلی تنظیمیں برسوں سے آئی ڈی ایف کے ہتھکنڈوں کے بارے میں متنبہ کر رہی ہیں۔ غزہ سے ملنے والی ویڈیوز، جن میں سے کچھ کو آئی ڈی ایف کے فوجیوں نے خود بنایا، دیکھنے کی خاطر ہم سب کے لیے عام ہیں۔‘

اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف ہرزی حلوی نے قیدیوں کی موت کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

انہوں نے کہا: ’جو کچھ ہوا اس کے لیے آئی ڈی ایف اور میں اس کے کمانڈر کی حیثیت سے ذمہ دار ہیں اور ہم مستقبل کی لڑائی میں اس طرح کے واقعات کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے کہا کہ یہ ایک ’خوفناک سانحہ‘ تھا لیکن خاندانوں کے مطالبات کے برعکس وہ اسرائیل کے فوجی مقاصد کو دوگنا کرتے نظر آئے اور کہا کہ ’قیدیوں کی واپسی اور فتح دونوں کے لیے فوجی دباؤ ضروری ہے۔‘

ہفتے کی شام پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اسرائیل کو فائر بندی اور غزہ سے فوجیوں کو واپس بلانے کی درخواستیں موصول ہوئیں لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے۔

انہوں نے ایک بار پھر اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ ’حماس کے خاتمے‘ کے بعد اسرائیل کا مقصد  کہ غزہ کو غیر فوجی بنانا اور ’اسرائیل کے سکیورٹی کنٹرول‘ میں لانا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے بقول: ’فوجی دباؤ کے بغیر ہم 110 قیدیوں کے لیے (نومبر کا) معاہدہ نہیں کر سکتے تھے۔‘ جنہیں رہا کر دیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں مذاکراتی ٹیم کو جو ہدایت دے رہا ہوں اس کی بنیاد اسی دباؤ پر ہے جس کے بغیر ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔‘

اسرائیلی شہریوں کی جانب سے اسرائیلی حکام پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ فوری طور پر فائر بندی کا معاہدہ کریں کیوں کہ خدشہ ہے کہ مزید قیدیوں کی جان جائے گی۔

15 سالہ ڈافنا اور نو سالہ ایلا ایلیاکم کی خالہ تاگت تزین، جنہیں گذشتہ ماہ غزہ سے 50 دن سے زیادہ عرصے تک قید میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا، نے اسرائیلی حکومت کے معاملے میں بڑھتی ہوئی مایوسی کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت ان خاندانوں کی بات نہیں سن رہی بلکہ فوجی مقاصد کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں کے جنوبی اسرائیل میں حملے کے دوران ڈافنا اور ایلا کے والد، سوتیلی ماں اور بھائی جان سے گئے۔

تل ابیب کے ایک چوک میں جہاں احتجاج ہو رہا تھا، انہوں نے کہا کہ ’صرف فائر بندی کے معاہدے سے قیدیوں زندہ نکل پائیں گے اور ہمارے فوجی اس طرح کے خطرے میں نہیں پڑیں گے۔ ہم جنگ بندی چاہتے ہیں اور سب کو رہا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے زندہ رہا ہونے کا یہی واحد راستہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی 15 سالہ بھانجی ڈافنا جو بالآخر قطر کی ثالثی میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی فائر بندی کے دوران رہا ہو گئیں، نے سوچا کہ وہ ’تابوت میں‘ ہی اسرائیل واپس آئیں گی کیوں کہ بمباری اتنی شدید تھی کہ نوجوانوں کے آس پاس کی عمارتیں منہدم ہو رہی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حماس کی سرنگوں میں ڈافنا کے ساتھ ایسے افراد موجود تھے جن کی حالت تشویشناک تھی۔ انہیں اب فوری طبی دیکھ بھال کے لئے باہر نکلنا ہوگا۔ ان کے لیے وقت پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔

’ہم چاہتے ہیں کہ عالمی رہنما قطر پر یا جو کوئی مدد کر سکتا ہے، اس پر دباؤ ڈالیں تاکہ فائر بندی کا معاہدہ ہو اور وہ (قیدی) وطن واپس آئیں۔ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ دنیا اس پر کام کرے کیوں ہم تنہا ایسا نہیں کر سکتے۔ ہمیں انہیں آگے لانا ہوگا۔‘

انابل زیک، جن کے کزن 38 سالہ تال شوہم اب بھی غزہ میں قید ہیں، نے اس بات دہرائی کہ باقی رہ جانے والے قیدیوں کے لیے ’ہر سیکنڈ اہم ہے۔‘

تال کی بیوی، 38 سالہ ادی اور ان کے بچوں تین سالہ یاہل اور آٹھ سالہ ناویح کو اسی معاہدے کے تحت رہا کیا گیا جس کے تحت ڈافنا اور ایلا کی جان بچی۔ تاہم تال کو الگ رکھا گیا اور خاندان کو امید ہے کہ وہ غزہ میں کہیں موجود ہیں۔

مرکزی چوک میں جہاں رشتے دار اور حامی جمع تھے، تال کے چہرے کا پوسٹر تھامے ہوئے زیک نے کہا: ’انہیں لے جانے کے بعد ہمارے پاس ان کے زندہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ زندہ ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اہل خانہ شجاعیہ میں تین قیدیوں کا قتل کو سمجھتے ہیں۔ یہ ایسی غلطی تھی جو ہو سکتی ہے۔‘

’ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا دوبارہ نہیں ہوگا۔ انہیں (قیدیوں کو) اب گھر آنا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ یاہل اور ناویح  ہر روز کہتے ہیں کہ ’ہم والد کی واپس چاہتے ہیں۔

’جب ادی اور بچے گھر آئے تو خوشی اور غم اکٹھے تھے۔ آپ ایک آنکھ سے ہنس اور دوسری سے رو رہے ہیں۔ یہ عمل تال کے بغیر مکمل نہیں۔‘

غزہ میں قید 19 سالہ اسرائیلی فوجی ایتے چن کے والد روبی چن کا کہنا تھا کہ ’ہم جنگی کابینہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ بات کرے۔‘

تل ابیب میں ’قیدی سکوائر‘ میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: ’اسرائیلی حکومت کو فعال ہونے کی ضرورت ہے اور انہیں میز پر پیشکش کرنے کی ضرورت ہے۔ قیدیوں کو زندہ واپس لانے کے لیے میز پر بہترین پیشکش رکھیں۔‘

یہ احتجاج ایسے وقت ہو رہا ہے جب اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری جاری رکھی ہوئی ہے جس میں صحت کے مقامی حکام کے مطابق اب تک 19 ہزار سے زیادہ شہری جان گنوا چکے ہیں جن میں سے 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔

غزہ شہر میں کیتھولک چرچ میں پناہ لینے والے سینکڑوں مسیحی فلسطینیوں کے اہل خانہ نے ہفتے کو دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے کمپلیکس کا محاصرہ کر رکھا ہے اور کمپاؤنڈ میں فائرنگ کر رہے ہیں۔

مقبوضہ بیت المقدس میں لاطینی پادری کے دفتر نے کہا ہے کہ اسرائیلی سنائپرز نے حملے کر کے ایک خاتون اور ان کی بیٹی کو گولی مار کر ان کی جان لے لی۔ جان سے جانے  والوں کی شناخت ناہیدہ اور ثمر کے ناموں سے ہوئی ہے۔

دفتر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ایک شخص اس وقت مارا گیا جب اس نے دوسرے کو محفوظ مقام پر لے جانے کی کوشش کی۔ گرجا گھر کے احاطے میں دوسروں کو بچانے کی کوشش کرنے والے مزید سات افراد کو گولی مار کر زخمی کر دیا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی ٹینک سے چلائے گئے گولے نے اسی کمپاؤنڈ کے اندر بنے ایک کونونٹ کو نشانہ بنایا جہاں 54 سے زیادہ معذور افراد رہائش پذیر ہیں جو اب بے گھر ہو چکے ہیں اور اب انہیں سانس لینے میں مدد دینے والے آلات تک رسائی نہیں جن کی ان میں سے بعض کو زندہ رہنے کے لیے ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عمارت کے جنریٹر اور اس کے ایندھن کے ذخیرے سمیت شمسی پینل اور پانی کے ٹینک بھی تباہ ہو چکے ہیں۔

دی انڈپینڈنٹ نے آئی ڈی ایف سے رابطہ کیا ہے لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا