پاکستان میں ڈرائیونگ کے مسائل کا حل کیا ہے؟

ٹریفک اشاروں کی پامالی، موٹر سائیکل پر کرتب بازی، پریشر ہارن، پاکستان کا ہر شہر ان ٹریفک مسائل میں بری طرح گھرا ہوا ہے۔ مگر ان سے نمٹا کیسے جائے؟

لاہور میں کم عمر ڈرائیوروں اور بغیر لائسنس گاڑی چلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں 1632 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں جبکہ سینکڑوں گاڑیاں تھانوں میں بند ہیں (لاہور ٹریفک پولیس)

آپ اگر لاہور میں رہتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح آپ نے ایک آدھ چھوٹی یا بڑی گاڑی کا انتظام بھی کر لیا ہے۔ یقیناً آپ گاڑی چلاتے بھی ہوں گے تو ایسے میں آپ کے پاس لائسنس ہو یا نہ ہو اپنا وصیت نامہ اور آئی ڈی کارڈ ضرور ہونا چاہیے۔

اس بات کو وہ لوگ تو فوراً سمجھ گئے ہوں گے جو لاہور میں رہتے ہیں اور جو نہیں رہتے انہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہ کہانی پاکستان کے ہر بڑے شہر کی ہے۔

ہوتا کچھ یوں ہے کہ آپ ون وے سڑک پر اپنے دائیں بائیں ٹریفک کو چیک کرتے ہوئے اس اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں سامنے سے کوئی نہیں آ رہا ہو گا لیکن پتہ تب چلتا ہے جب اچانک کوئی بائیک، کوئی سائیکل، کوئی رکشہ اور کبھی کبھار گاڑی بھی یکایک کہیں سے نمودار ہوتی ہے اور آپ کو بریک پر پاؤں رکھتے ہوئے اپنی گاڑی کا بمپر بچانا پڑتا ہے۔

ایسا نہیں کہ اس وقت آس پاس کوئی ٹریفک اہلکار موجود نہیں ہوتا، سب ہوتا ہے لیکن ان کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔

ہم پاکستانی ہیں اور زیادہ تر مسلمان بھی اس لیے کسی پولیس ولیس سے نہیں ڈرتے ہم صرف اللہ سے ڈرتے ہیں اور وہ تو ویسے ہی مہربان اور معاف کردینے والا ہے، لہٰذا ٹریفک قوانین اور راستوں کی پابندی ہم پر کسی بھی طرح کی ذمہ داری کے طور پر عائد نہیں ہوتی۔

یہ سامنے سے آنے والے ڈرائیور حضرات عموماً دو تین سو میٹر دور یو ٹرن پر وقت ضائع کرنے کی بجائے یہ شارٹ کٹ اختیار کرتے ہیں اور جو کوئی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے سیدھا راستہ اختیار کرے اسے عموماً خاتون ڈرائیور یا احمق ڈرائیور خیال کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اب دوسرا اہم قدم یہ ہوتا ہے کہ 30 سیکنڈ انتظار اس قدر مشکل ہوتا ہے کچھ لوگوں کے لیے کہ وہ اشارے پر رکنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس لیے آپ کی طرف کا اشارہ سبز ہو تب بھی آپ گاڑی نکالتے وقت مکمل طور پر بےفکر نہیں ہو سکتے۔ آپ کو اشارہ توڑنے والے کو بھی خود بچانا ہے اور اپنے آپ کو بھی۔

اگر وہ موٹر سائیکل سوار ہے تو سیدھا آپ پر الزام آئے گا چونکہ آپ گاڑی والے ہیں تو اپ نے اندھا دھند گاڑی چلاتے ہوئے موٹر سائیکل سوار کو ٹکر مار دی۔ کوئی یہ جاننے کی زحمت بھی نہیں کرے گا وہ بھائی جان خود ہی زندگی سے تنگ تھے اس لیے آپ کی گاڑی کے سامنے کود پڑے۔

اب تیسرے مسئلے کی طرف آتے ہیں۔

سڑک پر شدید بھیڑبھاڑ ہونے کے باوجود رکشے اور موٹر سائیکل والے اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ گزرتے ہیں کہ کئی بار ایسے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی گاڑی کی سائیڈ اتار کے لے جائیں گے یا آج سائیڈ ویو مرر تو گیا۔ یہ نہیں تو کئی بار یہ خوف بھی آتا ہے کہ یہ آگے چل کر کسی ایکسیڈنٹ کا شکار نہ ہو جائے۔

اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ آپ کے پاس سے تیزیاں دکھا کر جا تے ہوئے لوگ کسی نہ کسی حادثے کو جنم ضرور دیتے ہیں۔

چوتھا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب حرکتیں کرنے والے افراد ہیلمٹ نہیں پہنتے۔ موٹر سائیکل پر چار سے پانچ افراد کو بٹھا کر جب وہ کسی اشارے، کسی سمت اور کسی مشرق مغرب کا خیال رکھے بغیر کرتب دکھا رہے ہوتے ہیں تو خدانخواستہ کسی ایکسیڈنٹ کی صورت میں خود تو ڈوبتے ہیں ساتھ والوں کو لے ڈوبتے ہیں۔

اس پر مستزاد ہمارے ہاں اکثر سواریوں کی ہیڈ لائیٹس اور اشارے کام نہیں کرتے۔ اس لیے اگر کوئی رکشہ یا موٹر سائیکل سوار بار بار کسی ایک طرف کو دیکھ رہا ہو اور سر گھمائے تو آپ کو خود ہی سمجھنا پڑتا ہے کہ ان کا ارادہ ادھر کو مڑنے کا ہے۔ لہٰذا آپ ان کے احترام میں بریک لگا کر انہیں راستہ دیں ورنہ وہ یک دم آپ کے سامنے آ کر آپ کا دم نکال دیں گے۔

ایک اور بڑا اہم مسئلہ بھاری ٹرکوں کا شہر کے اندر دن دیہاڑے دندناتے پھرنا ہے۔

ان کے ساتھ لگے پریشر ہارن آپ کو سڑک پر بوکھلا دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اب ان سب مسائل کا حل کیا ہو سکتا ہے؟

آپ کہیں گے اچھی تربیت، قوانین پر عمل درآمد کروانے کی کوششیں اور سلیبس میں ان باتوں کو شامل کرنا لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ اس سب کا علاج صرف ڈنڈا ہے اور اس کا کیا مطلب ہے وہ آپ اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کیونکہ ہم پیار نہیں مار کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔

اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات نے چند ماہ پہلے ایک تجربہ کیا تھا اور وہ تھا بھاری جرمانوں کا۔ وہاں اجازت کے بغیر سڑک پر ریس لگانے کا جرمانہ پاکستانی روپوں میں 75 لاکھ، اشارہ توڑنے پر 37 لاکھ اور جن سڑکوں پر موٹر سائیکل چلانے کی اجازت نہیں وہاں بائیک چلانے پر 37 لاکھ جرمانہ ہو گا۔ یہ جرمانے اتنے ہیں جن میں ایک اچھی خاصی گاڑی آ سکتی ہے۔

ان جرمانوں کے علاوہ اگر ایک دو راتیں حوالات میں بھی بند کرنا پڑے تو نتائج اچھنے نکلنے کی امید ہے۔

لاہور ٹریفک پولیس نے عدالت کے دباؤ میں آ کر لائسنس کے بغیر موٹر سائیکل چلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے، مگر اشارہ توڑنے، ون وے کی خلاف ورزی کرنے، تیز رفتاری سے گاڑی چلانے وغیرہ پر کوئی کریک ڈاؤن نہیں ہے۔ کیا اس کے لیے بھی عدالت کے حکم کی ضرورت ہے؟

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ