کوپ 28 سے آگے اب مزید کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

ماحولیات کے تاریخی اجلاس کے اختتام پر انتہائی اہم ہے کہ فطرت کو بحال کیا جائے، تاکہ دنیا کی حفاظت اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔

13 دسمبر 2023 کو کوپ 28 کے سربراہ سلطان احمد الجابر دبئی میں دیگر عہدے داروں کے ہمراہ (اے ایف پی)

ماحولیات کو بچانے کے لیے کانفرنس آف دا پارٹیز (کوپ) کے 28 ویں اجلاس کے آغاز کے ساتھ ہی کئی سوالیہ نشانات دبئی کی گرم اور مرطوب ہوا میں واضح طور پر معلق تھے۔

یہ سوالیہ نشان اس بارے میں تھے کہ کیا عالمی رہنما لاس اینڈ ڈیمج (ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے) فنڈ کے قیام، فوسل ایندھن کے خاتمے اور قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے پر راضی ہوں گے؟

کیا ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں آخرکار فطرت کو ہمارے سب سے بڑے اتحادی کے طور پر تسلیم کیا جائے گا اور کیا اڈاپشن اور نقصانات میں کمی کے کلیدی معاہدوں میں جنگلات کی کٹائی اور فطرت پر مبنی حل شامل ہوں گے؟

دنیا بھر سے جمع کیے گئے سنجیدہ مطالعات کے بعد کوپ 28 نے ہمارے لیے (راحت کا) ایک لمحہ فراہم کرنے کے لیے ہنگامہ خیز راستہ اختیار کیا لیکن اگلے لمحے کے بارے میں ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں۔ کانفرنس کے افتتاحی دن عالمی رہنماؤں نے طویل انتظار کے بعد سیلاب، خشک سالی، طوفانوں اور زیادہ درجہ حرارت سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی مالی اعانت کے لیے لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کا اعلان تو کر دیا لیکن اس کے بعد ضرورت سے کم شدت کے وعدوں اور احکامات کا اعلان کیا۔

ہم نے دیکھا کہ 118 ممالک نے 2030 تک عالمی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو تین گنا کرنے کا عہد کیا لیکن پھر توانائی کی بڑی کمپنیوں نے اشارہ کیا کہ وہ انہیں ایسا نہیں کرنے دیں گی اور آخر کار ہم نے دنیا کو فوسل ایندھن کو مرحلہ وار کم کرنے کی بجائے مکمل منتقلی کے معاہدے کے ارد گرد متحد ہوتے دیکھا، جو ایک تاریخی اقدام ہے لیکن اس میں وضاحت اور عزائم کا فقدان ہے جو کہ ہمیں کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ایک قطعی راستے پر گامزن کرنے کے لیے ضروری تھا۔

اب جب کہ یہ ختم ہو چکا ہے، ہمیں کوپ 28 سے کیا حاصل کرنا چاہیے؟ اور ہم یہاں سے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے، فطرت کی بحالی اور گلوبل نارتھ اور گلوبل ساؤتھ میں مثبت فطرت پر مبنی اقتصادی خوشحالی کی حمایت کے لیے کس حد تک جائیں گے؟

ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فطرت ہمارا سب سے بڑا اور کم قیمت ہتھیار ہے۔ ماحولیاتی نظام کی حفاظت، اس کے انتظام اور بحالی سے کم از کم 30 فیصد مطلوبہ موسمیاتی تبدیلی میں کمی کے ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ درختوں کو صحت مند ماحولیاتی نظام میں مزید بڑھنے کی اجازت دینے سے تنزلی کے شکار شعبوں کو بحال کیا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر 226 گیگا ٹن کاربن کو ماحول سے نکالا جا سکتا ہے، جو 2022 کے لیے تقریباً 50 سال کے امریکی اخراج کے برابر ہے۔ مختصر یہ کہ کاربن کے زیرو اخراج کے لیے کوئی طریقہ کار نہیں اور ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کا کوئی حل نہیں، اگر قدرتی دنیا کی حفاظت اور بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں شامل نہیں کی جاتیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ کوئلے، تیل اور گیس سے مکمل منتقلی کی کوششیں بھی فطرت کو بچانے کے لیے پرعزم اور فوری کارروائی کی متقاضی ہیں۔ کوپ 28 میں عالمی رہنماؤں نے کرہ ارض کی آب و ہوا اور حیاتیاتی تنوع کے درمیان باہمی انحصار کو تسلیم کیا۔

کوپ 28 اور کوپ 15 کی صدارتوں کے ساتھ برازیل، سینیگال، کولمبیا، برطانیہ اور امریکہ سمیت 15 سے زائد ممالک نے قومی ماحولیات، حیاتیاتی تنوع اور زمین کی بحالی کے منصوبوں اور حکمت عملیوں اور منصوبہ بندی کے نفاذ کے کے لیے زیادہ سے زیادہ صف بندی کا عہد کیا۔

بہت سے لوگ گلاسگو میں ہونے والے کوپ 26 کے تاریخی عزم کو یاد کریں گے، جب 145 عالمی رہنماؤں نے 2030 تک جنگلات کے نقصان اور زمین کی تباہی کو روکنے اور اسے دوبارہ پہلے جیسا کرنے کا عہد کیا تھا۔

کوپ 28 میں حکومتوں نے ہمیں بتایا کہ وہ اس ہدف کے لیے کس طرح کام کر رہی ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے تین فارسٹ فنانس پیکجز کا اعلان کیا، جن کے تحت پاپوا نیو گنی کو 10 کروڑ ڈالر، ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو کو چھ کروڑ ڈالر اور جمہوریہ کانگو کو پانچ کروڑ ڈالر دیے جائیں گے۔

ٹونگا کے وزیراعظم سیاوسی اوفاکیواہافولاؤ سووالینی نے 2030 تک بحرالکاہل کے چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ریاستوں کو اپنے 30 فیصد پانیوں اور خصوصی اقتصادی زونز کے تحفظ کے لیے 10 کروڑ ڈالر کا اعلان کیا، جو واحد اقدام تھا، جس میں بحرالکاہل کی جزیروں پر مشتمل تقریباً تمام ریاستیں شامل ہیں اور یہ دنیا کے سب سے بڑے تحفظ پر مبنی اقدام کی نمائندگی کرتا ہے جس کا دنیا نے اس سے پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا۔

گھانا کے صدر نانا اکوفواڈو نے ہائی انٹیگریٹی کاربن مارکیٹس، پائیدار زراعت اور کان کنی اور فطرت کے لیے مثبت جنگلات اور ان کی بحالی کے لیے آٹھ کروڑ سے زیادہ کا اعلان کیا۔

مزید برآں عالمی بینک نے موسمیات سے متعلق منصوبوں پر اخراجات کو اپنی سالانہ مالی اعانت کا 45 فیصد تک بڑھانے کا وعدہ کیا، کثیر جہتی ترقیاتی بینک آب و ہوا، فطرت اور آلودگی کو ایک ساتھ حل کرنے کے لیے ایک ایجنڈے پر متحد ہو گئے اور کوسٹا ریکا اور گھانا پہلے جنگلات والے ممالک بن گئے جنہوں نے پبلک پرائیویٹ سیکٹر میں ایل ای اے ایف اتحاد کے تحت جنگلاتی کاربن کریڈٹس فروخت کرنے پر اتفاق کیا اور ممکنہ طور پر تحفظ اور پائیدار معاش کے لیے چھ کروڑ ڈالر سے زیادہ کی رقم حاصل کی جا سکے گی۔

لیکن کیا یہ نئے فنڈز اور مالیاتی حل ماحول کو بچانے کے لیے کافی ہوں گے؟

تازہ ترین سائنسی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ممکنہ طور پر کرہ ارض کا درجہ حرارت 1.5 سیلسیئس سے تجاوز کر جائے گا اور ہم تباہ کن آب و ہوا کے آخری سرے کو عبور کرنے کے دہانے پر ہیں، جو لوگوں اور فطرت کو زبردست نقصان پہنچائیں گے۔

کوئلے، تیل اور گیس کو جلانے سے عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج رواں سال ایک نئے ریکارڈ تک پہنچ گیا ہے اور آنے والے سالوں میں اس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

ایک ہی وقت میں بہت زیادہ پیسہ اب بھی ان سرگرمیوں میں لگایا جا رہا ہے، جو ہماری دنیا کو نقصان پہنچاتی ہیں، بجائے ان کے جس سے اس کا تحفظ ممکن ہو۔ بینکوں نے گرم خطوں میں جنگلات کی کٹائی کرنے والی کمپنیوں میں سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری جاری رکھی ہوئی ہے۔ 75 فیصد مالیاتی اداروں کے پاس جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے عوامی پالیسی ہی موجود نہیں ہے۔ اس دوران عالمی سطح پر جنگلات کی کٹائی کی شرح ایک منٹ میں 15 فٹ بال فیلڈز کے برابر رقبے جتنی ہے۔

ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی سبسڈیز کا تخمینہ 1.7 کھرب ڈالر جب کہ فطرت پر براہ راست منفی اثر کرنے والے نجی سرمائے کا تخمینہ پانچ کھرب ڈالر ہے۔

جیسا کہ پیچیدہ معاملات سامنے کھڑے ہیں، فطرت کی بحالی کے حل کے لیے موجودہ مالیاتی بہاؤ 200 ارب ڈالر ہے جو کہ 2030 تک آب و ہوا، حیاتیاتی تنوع اور زمین کو تباہی سے بچانے کے اہداف تک پہنچنے کے لیے درکار لیولز کا صرف ایک تہائی حصہ ہے حالانکہ اس پیمانے پر فطرت کے لیے مثبت کاروباری ماڈلز 10 کھرب ڈالر کے کاروباری مواقع کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یہ دیکھنا آسان ہے کہ اس حوالے سے پیش رفت ہدف سے میلوں دور ہے اور یہ کہ ماحولیات میں نقصان میں تخفیف اور قابل عمل حل کے حصول کے لیے فطرت کو کم اہمیت حاصل ہے، اس کے لیے فنڈز کم ہیں اور اس سے کم فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔

جب کہ عالمی رہنما متحدہ عرب امارات سے اپنے ملکوں کو واپس لوٹ گئے ہیں، اب ان کی ترجیح کیا ہونی چاہیے؟ ہم کوپ 28 سے اپنی رفتار بڑھانے اور 2024 میں پیشرفت کو تیز کرنے کے لیے چار اہم اقدامات تجویز کرتے ہیں۔

ماحولیات کے لیے فیصلہ سازی میں فطرت کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ مضبوط قومی پالیسیاں (این ڈی سیز) مرتب کریں، مالیاتی مسائل کو ختم کرنے کو ترجیح دیں اور جنگلات کی کٹائی کی فنانسنگ کو ختم کرنے اور فطرت پر مبنی حل کے لیے براہ راست سرمائے کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کریں اور اس حوالے سے معلومات عام کرنے کو لازمی قرار دیں۔

سرکاری اور نجی مالیاتی بہاؤ کو درست رکھیں تاکہ ان سے ماحولیاتی نظام کو مزید نقصان نہ پہنچ سکے اور اس کے بجائے فطرت کے تحفظ، انتظام اور بحالی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان کو کم کریں۔ سرمایہ کاری کے فرق کو ختم کریں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں کہ جنگلات، سمندری گھاس اور دلدلی علاقے کی بحالی سمیت فطرت پر مبنی حل میں سالانہ سرمایہ کاری کریں جو تقریباً تین گنا بڑھ کر 2030 تک 542 ارب ڈالر تک پہنچنی چاہیے۔

اس بات کو یقینی بنائیں کہ مقامی لوگوں اور مقامی برادریوں کا موجودہ اور نئے آب و ہوا اور فطرت سے متعلق منصوبوں کو عملی شکل دینے میں اہم کردار ہو۔ فی الحال مقامی لوگ اور مقامی برادریاں فیصد سے بھی کم حیاتیاتی تنوع اور موسمیاتی مالیات حاصل کرتے ہیں، پھر بھی وہ دنیا کے 80 فیصد سے زیادہ حیاتیاتی تنوع کے محافظ ہیں۔ اس نا انصافی کا کوئی جواز نہیں۔

نقصان دہ سبسڈیز کو دوبارہ استعمال کرتے ہوئے اور نئی ترغیبات پیدا کرکے زراعت اور خوراک کے نظام کو تبدیل کریں، جو ری جنریٹیو انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کرے۔ اس میں چھوٹے کسانوں اور دیگر فرنٹ لائن کمیونٹیز کے لیے عبوری مالیات کو بڑھانا شامل ہونا چاہیے۔

اگرچہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے لیکن ان چار اہم اقدامات کو کوپ 28 کے بعد کی منصوبہ بندی میں شامل کر کے عالمی رہنما ایک واضح فرق پیدا کر سکتے ہیں اور کریں گے۔

اور پرامید ہونے کی وجہ بھی ہے۔ انڈونیشیا میں تین سالوں سے جنگلات کی کٹائی میں کمی دیکھی گئی ہے اور اب یہ کم ترین سطح پر ہے۔

برازیل کے ایمازون جنگلات میں صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا کے دورِ اقتدار کے پہلے چھ ماہ کے دوران جنگلات کی کٹائی میں 30 فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی، جس سے اہم ماحولیاتی نظام کی تباہی کو روکنے میں قومی حکومتوں کا اہم کردار اجاگر ہوتا ہے۔ ہمیں اس رجحان کو جاری رکھنے اور بڑھانے کی ضرورت ہے، عالمی رہنما ہماری دھرتی کے تحفظ کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ انسان اور زمین پر تمام زندگی پھل پھول سکے۔

لارڈ زیک گولڈ سمتھ سمندر پار علاقوں، دولت مشترکہ، توانائی، آب و ہوا اور ماحولیات کے سابق وزیر مملکت ہیں۔ ایم سنجاین کنزرویشن انٹرنیشنل کے سی ای او ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر