کوپ 28: دو پاکستانی خواتین نے ’جینڈر جسٹ سلوشن ایوارڈ‘ جیتے

حرا امجد ’دستک‘ کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم چلاتی ہیں، جبکہ عائشہ امین ’بیٹھک‘ کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ ہیں جو صنفی مساوات کے ضمن میں کام کرتی ہے۔

حال ہی میں دبئی میں موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر منعقد ہونے والی کانفرنس کوپ 28 میں نمایاں کام انجام دینے پر جن افراد کو خصوصی اعزازات دیے گئے، ان میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی عائشہ امین اور حرا امجد بھی شامل ہیں، جنہیں ’جینڈر جسٹ سلوشن ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔

حرا امجد ’دستک‘ کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم چلاتی ہیں، جبکہ عائشہ امین ’بیٹھک‘ کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ ہیں جو صنفی مساوات کے ضمن میں کام کرتی ہے۔

’دستک‘ کا زیادہ تر کام پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہے جبکہ ’بیٹھک‘ جنوبی پاکستان میں سرگرم ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اور صنفی مساوات کا تعلق کیا ہے اور ان کا حل کیا ہے؟ اس ضمن میں ہم نے ’بیٹھک‘ کی سی ای او عائشہ امین سے ملاقات کی اور ایوارڈ کی مبارکباد کے ساتھ ساتھ معلومات عامہ کے لیے درجنوں سوال بھی کر ڈالے، جو اب پیش خدمت ہیں۔

صنفی مساوات اور موسمیاتی تبدیلی کے آپس میں تعلق کے حوالے سے سوال پر عائشہ امین نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ہر سال کوپ میں یہ ایوارڈ ان تین افراد یا اداروں کو دیا جاتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے ضمن میں ہونے والے مسائل کا صنفی اعتبار سے کوئی حل پیش کریں۔

عائشہ امین کے ادارے ’بیٹھک‘ اور ’دستک‘ نے گذشتہ سال پاکستان میں ہونے والی سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس کے نتیجے میں خواتین کو درپیش خصوصی مسائل کے حل اور تدارک کے لیے ایک خاص طرح کی تیاریوں پر زور دیا ہے اور ایک ایسی فہرست تیار ہے، جس کی ایسے آفت زدہ علاقوں میں شدید ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب بھی اس طرح کی کوئی آفت آتی ہے، تو یہ دیکھا گیا ہے کہ آفت زدہ علاقوں میں خواتین کی مخصوص ضرورتوں کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’خواتین کو ماہواری کے دوران کچھ اشیا کی ضرورت ہوتی ہے، اگر سینیٹری پیڈ نہ بھی ہوں تو کم از کم کپڑا دھونے کے لیے صاف پانی درکار ہوتا ہے، اسی طرح خواتین کے لیے بیت الخلا کی سہولت علیحدہ سے نہیں ہوتی، جب متاثرین کے لیے امدادی سامان جمع کیا جاتا ہے تو اس میں خواتین کے لیے مخصوص سامان جمع ہی نہیں کیا جاتا ہے، اس امدادی پیکٹ میں یہ ہوتا ہی نہیں ہے، اسی طرح حاملہ خواتین کی ضرورتیں بھی متاثرین کے کیمپ میں نہیں ہوتیں۔‘

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین پہلے ہی تباہ حال تھے، ایسے میں وہ لڑکیاں جنہیں پہلی مرتبہ ماہواری کا سامنا تھا، ان کے لیے یہ سب بہت زیادہ مشکل تھا، بہت تکلیف دہ تھا، ان کو بھی ہم نے سمجھایا کہ یہ ایک فطری عمل ہے اور حکومت سے بھی کہا کہ ان کی ضرورتوں کا کس طرح خیال رکھنا ہے۔

’اکثر جگہوں پر سینیٹری پیڈز نہیں ہوتے اور خواتین اپنے دوپٹے پھاڑ کر کسی طرح گزارہ کر رہی تھیں، جو صحت کے لیے خطرناک ہے کیونکہ گندا کپڑا اور دھونے کے لیے صاف پانی بھی نہیں ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کیمپ میں مختلف حشرات الارض تھے، بچھو تک تھے بلکہ کہیں کہیں تو خواتین پر حملے بھی ہوئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لیے جو کیمپ بنائے جاتے ہیں یا تو ان میں بیت الخلا نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی تھے تو خواتین کے لیے الگ نہیں ہوتے تھے، ایسے میں خواتین پورا دن انتظار کرکے رات کو وہاں جاتی تھیں، جو ایک مسئلہ تھا۔

عائشہ امین نے ان تمام مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے، سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد و بحالی کے لیے کام کرنے والے 40 سے زیادہ ایسے غیر سرکاری اداروں کی مشاورت اور مزید پانچ ہزار متاثرہ خواتین کی رائے لے کر ایک فہرست تیار کی ہے اور حکومت سے کہا ہے کہ وہ امدادی سامان، جیسے کہ راشن کے تھیلوں کے ساتھ ساتھ یہ اشیا بھی متاثرہ خواتین تک پہنچائیں۔

اسی ٹول کٹ کو بنانے پر کوپ 28 نے عائشہ امین کو ایوارڈ دیا ہے۔

اب عائشہ امین کا کہنا ہے کہ یہ کام انہوں نے مقامی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھ کر کیا تھا اور اب وہ چاہتی ہیں کہ اسے عالمی سطح پر متعارف کروایا جائے تاکہ دیگر ممالک میں بھی قدرتی آفات آنے کی صورت میں خواتین کو یہ اشیا فراہم کی جا سکیں۔

عائشہ امین نے کہا کہ ابھی تک حکومت پاکستان نے کسی بھی سطح پر ان سے رابطہ نہیں کیا، تاہم وہ چاہتی ہیں کہ حکومت کے ساتھ تعاون ہو کیونکہ یہ ٹول کٹ تو حکومت ہی کے لیے ہے مگر وہاں اب تک خاموشی ہے۔

دبئی میں ان کا حکومت کے ارکان سے رابطہ ہوا تھا مگر ان میں سے کوئی بھی بلانے کے باوجود ایوارڈ کی تقریب میں نہیں آیا۔

عائشہ امین نے بتایا کہ بنگلہ دیش اور افریقہ سے ایک ایک ایوارڈ یافتگان تھے، جن کے ممالک کی جانب سے بہت لوگ موجود تھے، لیکن ان کے لیے کوئی نہیں تھا۔ یہ کام ایسا ہے کہ حکومت کی مدد ہی چاہیے، اس کے بنا ہوگا نہیں، لیکن صورتِ حال مایوس کن ہے۔

’بنیادی طور پر کسی بھی آفت کے نتیجے میں سرکاری ادارے ایک ڈیش بورڈ بناتے ہیں کہ کس سامان کی کتنی ضرورت ہے، اس میں ماہواری کے لیے پیڈ بھی نہیں ہوتے، یہ مسئلہ ہے جسے حل ہونا ہوگا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اسی طرح ریلیف کیمپ میں خواتین کی سلامتی کے مسائل ہوتے ہیں، جس کے لیے ضروری ہے کہ خواتین افسر ہر کیمپ کا باقاعدگی سے دورہ کریں، ہمارے سماجی نظام میں خواتین اپنے مسائل مردوں کو نہیں بتا سکتیں، اس لیے وہاں خواتین افسران کا ہونا ضروری ہے۔‘


مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات