یوں تو جنوبی ایشیا میں گڑ کی بے شمار قسمیں تیار کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں گڑ کی دو سے تین قسمیں بہت مشہور ہیں۔
میانوالی سے تعلق رکھنے والے طارق تنویر جو گڑ کے کاروبار سے وابستہ ہیں کہتے ہیں کہ ’اس میں ایک ناریل اور خشک میوہ جات والا گڑ زیادہ مشہور ہے کیوں کہ نٹس والا گڑ ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔‘
ان کے مطابق ’اسے سوغات کے طور پر تیار کیا جاتا ہے اور پورے پاکستان میں لوگوں کو بانٹا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک سادہ گڑ چائے کے لیے یا دیگر کھانوں کے لیے بنایا جاتا تھا۔‘
امجد کہتے ہیں ’ایک گڑ کیمیکل انزائم اور کیمیکل کے بغیر بنایا جاتا ہے جس میں معیار کے لحاظ سے دونوں میں تھوڑا فرق ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس طرح براؤن شوگر بھی اسی سے بنائی جاتی ہے۔ یوں یہ تین سے چار پروڈکٹ ہیں جو آسانی سے عام گنے سے پیدا کی جاتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طارق تنویر کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہم گڑ کیمیکل کے ساتھ بناتے ہیں تو وہ تھوڑا سا سستا ہوتا ہے چونکہ اس میں کیمیکل ملانے کی وجہ سے اس کا وزن بڑھ جاتا ہے اگرچہ اس کی کوالٹی ضرور تھوڑی کم ہوتی ہے۔
’اس لیے اس کی قیمت بھی کم یعنی کہ کم و بیش دو سو روپے کلو ہوتی ہے۔ اسی طرح جب گڑ آرگینک طریقے سے بنائیں گے یعنی کیمیکل کے بغیر تو وہ تھوڑا مہنگا ہوتا ہے۔‘
امجد کے مطابق ’یہ گڑ ڈھائی سو سے تین سو کلو تک فروخت ہوتا ہے اور اگر گڑ میں خشک میوہ جات شامل ہوں گے تو وہ اور مہنگا ہو جاتا ہے جو کہ بڑا خاص گڑ ہوتا ہے۔ جس کو سردیوں میں بطور سوغات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم گڑ کی جو مختلف مصنوعات بنا رہے ہیں اور ان کو فروغ دے رہے ہیں اس کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ ہم نے کسان کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔