افغانستان میں مصالحت کا عمل شروع کرنے کا منصوبہ نہیں: طالبان

دوحہ معاہدے میں کہا گیا تھا کہ طالبان سب کے ساتھ بات چیت کریں گے لیکن اب جب کہ طالبان اقتدار میں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انہیں امن مذاکرات کی ضرورت نظر نہیں آتی۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد 30 جون 2022 کو کابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بات کر رہے ہیں (اے ایف پی/ وکیل کوہسار)

افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے، جس کے مطابق ملک میں امن اور مفاہمت کا عمل دوبارہ شروع ہو۔

انہوں نے یہ بیان بی بی سی پشتو کے ساتھ ایک ایکس (ٹوئٹر) سپیس میں گفتگو کے دوران دیا، جو دوحہ معاہدے کی شقوں سے مطابقت نہیں رکھتا، جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان سب کے ساتھ بات چیت کریں گے لیکن اب جب کہ طالبان اقتدار میں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انہیں امن مذاکرات کی ضرورت نظر نہیں آتی۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس بات کا امکان ہے کہ طالبان کے مخالفین جو اب بیرون ملک مقیم ہیں، ان کے ساتھ امن اور مفاہمت کا عمل 2024 میں شروع ہو جائے گا؟ ذبیح اللہ مجاہد کا جواب نفی میں تھا، جن کا کہنا تھا کہ ’وہ ماضی کے تجربات کو نہیں دہراتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’افغانستان کو نظریات کی تجربہ گاہ نہیں بننا چاہیے، ہم نہیں چاہتے کہ جن شخصیات کو افغانستان میں آزمایا گیا وہ افغانستان میں اپنی پوزیشن قائم کریں اور افغانستان کی تقدیر سے کھیلیں۔‘

طالبان کی حکومت پر تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے افغانستان میں تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے رکھا ہے اور ان سیاست دانوں کو حکومت میں شامل نہیں ہونے دیتے جو ان کے خیالات سے متفق نہیں ہیں۔

تاہم ذبیح اللہ مجاہد کا اصرار ہے کہ ’افغانستان کے لوگوں کا سیاسی کلچر زیادہ نہیں ہے‘ اور ان کے خیال میں ’استحکام ایک ہی سیاست اور ایک قیادت سے آتا ہے۔‘

طالبان حکومت کے مخالفین، جن میں سے اکثر افغانستان سے باہر رہتے ہیں، ہمیشہ اصرار کرتے ہیں کہ طالبان حکومت کو امن مذاکرات کے لیے ان کے ساتھ رابطہ کرنا چاہیے، لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ وہ سابق عہدیداروں اور سیاست دانوں کو سیاست کی اجازت نہیں دیتے۔

طالبان رہنما تصویر کیوں نہیں بناتے؟

اس آن لائن بحث میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی کہا کہ ان کے رہنما مولوی ہبت اللہ اخوندزادہ تقویٰ کی وجہ سے تصویریں نہیں بنواتے۔ ان کا مزید کہنا تھا: ’امیر شریعت کے مطابق فوٹو نہیں کھینچتے، رہنما ان چیزوں کے بارے میں حساس ہوتا ہے، وہ پرہیزگاری کرتا ہے، تقویٰ کے لحاظ سے علما تصویر کو اچھا نہیں سمجھتے۔‘

تاہم بہت سے مذہبی سکالرز اور ان کے اپنے طالبان رہنما اور وزرا ٹی وی پر انٹرویوز دیتے رہے ہیں اور ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر شائع ہوئی ہیں۔ اس سے قبل طالبان کا کہنا تھا کہ ان کے رہنما سکیورٹی مسائل کی وجہ سے تصویریں نہیں بنواتے۔

لڑکیوں کی تعلیم؟

اس مباحثے میں طالبان حکومت کے ترجمان سے شرکا نے لڑکیوں کے لیے یونیورسٹیوں اور سکولوں میں داخلے پر پابندی کے بارے میں بہت سے سوالات کیے۔

افغانستان میں چھٹی جماعت سے بعد لڑکیوں کے سکول بند ہوئے تقریباً 830 دن ہو چکے ہیں جبکہ یونیورسٹی کی لڑکیوں کو پڑھائی سے نکالے ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔

طالبان حکومت کے ترجمان کا اس حوالے سے کہنا تھا: ’مجھے امید ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن ہم نہیں چاہتے کہ اس بارے میں کوئی تضاد یا ابہام ہو، جس سے نظام تباہ ہوا اور ہم اس حوالے سے بہت محتاط ہیں۔‘

طالبان حکومت کے بعض اعلیٰ عہدے دار کہہ چکے ہیں کہ صرف چند طالبان رہنما لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں، جب کہ بہت سے رہنما اس کے حق میں ہیں۔

جب ذبیح اللہ مجاہد سے پوچھا گیا کہ یہ کون لوگ ہیں تو ان کا جواب تھا: ’ناموں کی ضرورت نہیں، افغانستان میں رواداری ہے، کچھ علما ہیں اور ایسے خیالات ہیں جو اختلاف کا باعث بنتے ہیں۔‘

افغانستان میں طالبان کی حکومت بننے کے بعد سے کسی ملک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے تسلیم کرنے کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں اور بہت سے ممالک ’انہیں اپنے دل میں تسلیم کرتے ہیں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا