لشمینیا سے مریضوں کے ذہنوں پر نفسیاتی اثر بڑھنے لگا: ماہرین

لشمینیا کے ہاٹ سپاٹ زیادہ تر خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں ہیں، خاص طور پر نئے ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں جہاں کوئی ماہرِ حیاتیات نہیں ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں لشمینیا کے سالانہ سات سے 10 لاکھ نئے ایسے کیسز سامنے آتے ہیں (عدیل سعید)

روایتی برقعے میں خود کو سر سے پاؤں تک ڈھانپے ایک نوجوان خاتون آسیہ خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند کے ہیڈکوارٹرز ہسپتال غلنئی کے ڈرماٹولوجی وارڈ میں ڈاکٹروں کے سامنے اپنے بگڑے ہوئے چہرے کو ظاہر کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کررہی تھیں۔

تاہم طبی ٹیم تھوڑی دیر کوشش کے بعد ان کے زخم سے داغ دار چہرے کے معائنے میں کامیاب ہوگئی۔

کیوٹینیئس لشمینیاس (Cutaneous Leishmaniasis) کے نام سے بیماری کی تشخیص ہوئی، جو ایک نظر انداز شدہ بیماری ہے اور گذشتہ کئی برسوں کے دوران ملک کے شمال مغربی علاقے میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔

لشمینیا تین شکلوں میں موجود ہے، جن میں Cutaneous Leishmaniasis (CL)، Visceral Leishmaniasis (VL) اور Mucocutaneous Leishmaniasis (MCL) شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں لشمینیا کے سالانہ سات سے 10 لاکھ نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ بیماری دنیا کے غریب ترین لوگوں میں سے کچھ کو متاثر کرتی ہے اور اس کا تعلق غذائیت کی کمی، نقل مکانی، غربت، کمزور مدافعتی نظام، موسمیاتی تبدیلی اور مالی وسائل کی کمی سے ہے۔

غلنئی ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں لشمینیا کے فوکل پرسن فضل رحیم کہتے ہیں: ’آسیہ کی طرف سے ظاہر کی گئی بے چینی لشمینیا کے مریضوں خاص طور پر خواتین کی طرف سے محسوس کیے جانے والے نفسیاتی صدمے کے ردعمل کے طور پر ہمارے لیے غیر معمولی نہیں بلکہ عام ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ جلد کو بری طرح سے نقصان پہنچانے کے علاوہ یہ تکلیف کا باعث بھی بنتا ہے اور جسم کے زیادہ تر چہرے کو متاثر کر کے مریضوں کو نفسیاتی طور پر ٹھیس پہنچاتا ہے۔

فضل بتاتے ہیں کہ یہ انفیکشن خاص طور پر نوجوان خواتین کو ایک شدید غم اور ذہنی صدمے سے دوچار کرتا ہے، جو ایک مہذب شادی کے لیے خوبصورتی کو ترجیح دینے کے معاشرتی اصول کے مطابق ہے۔ ’یہ انفیکشن شرمندگی، ڈپریشن، اضطراب اور خود سے حقارت کا باعث بنتا ہے۔ یہ مریضوں کا اعتماد بھی متزلزل کرتا ہے، خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کا، جو اپنی ظاہری شکل و صورت کے بارے میں بہت زیادہ فکرمند ہوتی ہیں۔‘

لشمینیا کے ایک ہاٹ سپاٹ ضلع مہمند کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر رفیق حیات ملیزئی نے بتایا کہ جون 2023 تک اس بیماری کے چار ہزار سے زیادہ مریض رجسٹرڈ ہوئے اور اس بیماری کا جذباتی اثر مرد مریضوں میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ 

ڈاکٹر رفیق نے بتایا کہ مریضوں کے ذہنوں پر لشمینیا کے نفسیاتی صدمے کو دیکھتے ہوئے علاج میں بزرگوں پر نوجوانوں کو ترجیح دی جا رہی ہے جبکہ نوجوانوں میں لڑکیوں کو گلوکین ٹائم انجیکشن کے محدود وسائل کے استعمال میں لڑکوں پر ترجیح ملتی ہے، جو جلد کی لشمینیا کے خلاف موثر دوا ہے اور اسے عالمی ادارہ صحت کے ذریعے درآمد کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح سکول جانے والے بچوں کو سکول سے باہر بچوں کے مقابلے میں علاج کی فراہمی میں ترجیح دی جاتی ہے تاکہ انہیں ہم جماعتوں کی طرف سے ہونے والی کسی قسم کی پریشانی کی وجہ سے پڑھائی میں خلل پڑنے سے بچایا جا سکے۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ زولوجی میں ایم فل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بی بی سکینہ نامی طالبہ کی جانب سے کیے گئے ایک تحقیقی مطالعے میں بھی مریضوں کے ذہنوں پر نفسیاتی دباؤ کے اثرات دیکھے گئے۔

لشمینیا کے نفسیاتی اور سماجی اثرات کے حوالے سے پاکستان میں پہلی مرتبہ سمجھی جانے والی اس تحقیق میں یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ Cutaneous Leishmaniasis مہلک نہیں ہے، لیکن بدقسمتی سے اس انفیکشن کی وجہ سے ہونے والا بگاڑ عام بدنما داغ کا باعث بنتا ہے اور مریضوں کی سماجی اور معاشی بہبود کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

پشاور کے کویت ٹیچنگ ہسپتال میں 130 مریضوں کے انٹرویوز کے ذریعے کی گئی تحقیق پر اس حوالے سے روشنی ڈالی گئی۔ سب سے زیادہ نشاندہی کی گئی شرمندگی میں سے ایک یہ ہے کہ متاثرہ نوجوان خواتین کو ملازمتوں کے حصول اور شادی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ مریضوں کے خاندانی، پیشے، ذاتی اور سماجی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس بیماری نے ان کی قدرتی خوبصورتی کو کافی حد تک بدل دیا ہے۔

130 مریضوں کے انٹرویوز کے دوران تقریباً 37.69 فیصد نے بتایا کہ وہ ہمیشہ مایوسی اور بے چینی کے منفی جذبات رکھتے ہیں۔ اس تحقیق میں ایک چونکا دینے والا انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ اس بات کے بڑھتے ہوئے ثبوت ہیں کہ مقامی علاقوں میں سکول جانے کی عمر کے بچوں میں لشمینیا کا انفیکشن سکولوں سے غیر حاضری کا باعث بنتا ہے۔

پشاور میں خدمات انجام دینے والی ماہر امراض جلد ڈاکٹر حفصہ عثمان کہتی ہیں کہ زیادہ تر مریض علاج کے بجائے داغ کو ہٹانے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، جو نفسیاتی دباؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے خیبرپختونخوا میں لشمینیا کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے خبردار کیا کیونکہ خیبر، مہمند، باجوڑ اور نوشہرہ جیسے ملحقہ اضلاع سے لوگ بڑی تعداد میں علاج کے لیے پشاور آ رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت عامہ کا وبائی امراض کا ریکارڈ بھی پچھلے تین سالوں کے دوران لشمینیا کے کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافے کی عکاسی کر رہا ہے، جن کی تعداد 2021 میں 3,177، 2022 میں 18180 اور 2023 کے اگست تک 19458 تھی۔

سال 2018 میں خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے میں 28 ہزار سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرنے والے لشمینیا کے اچانک پھیلنے کا مشاہدہ کیا گیا، جس سے طبی انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم طبیبان بےسرحد (ایم ایس ایف) نے صوبہ بلوچستان سے خیبر پختونخوا تک مفت طبی دیکھ بھال فراہم کرکے ہزاروں مریضوں کی مدد کی۔

پیشے کے اعتبار سے مستری حفیظ اللہ نے کہا کہ ان کے خاندان کے آٹھ افراد بشمول بوڑھی والدہ اور بچے لشمینیا سے متاثر ہیں اور میں ان سب کو روزانہ کی بنیاد پر علاج جاری رکھنے کے لیے چیراٹ (نوشہرہ) سے پشاور کے ہسپتال لانے کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا۔

نصیر اللہ خان بابر میموریل ہسپتال میں گلوکین ٹائم انجکشن لگنے کے بعد اپنی تین سالہ بیٹی کو تسلی دیتے ہوئے حفیظ اللہ نے بتایا کہ انہوں نے نوشہرہ میں صحت کی مختلف سہولیات کا دورہ کیا لیکن انہیں باقاعدہ انجیکشن نہیں ملا۔ آخر کار انہوں نے روزانہ کی بنیاد پر پشاور آنے کا ایک مشکل فیصلہ کیا تاکہ بیمار خاندان کے تمام افراد کو موٹر سائیکل پر باری باری نصیر اللہ خان ٹیچنگ ہسپتال میں علاج کے لیے لایا جا سکے۔

گلوکین ٹائم کی ایک شیشی اوپن مارکیٹ میں دوہزار روپے میں دستیاب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ خاندان کے آٹھ افراد کے علاج کے لیے میرے لیے روزانہ کی بنیاد پر آٹھ خوراکیں خریدنا ناممکن ہے۔

نصیر اللہ بابر ہسپتال کے ڈرماٹولوجی وارڈ کے سپروائزر فقیر حسین کہتے ہیں کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً آٹھ سے 10 نئے مریض مل رہے ہیں۔

فقیر نے بتایا کہ تقریباً تمام مریضوں کا علاج گلوکین ٹائم سے کیا جاتا ہے جو انسان کے جسمانی وزن کے حساب سے دیا جاتا ہے۔ 20 کلو کے بچے کو 20 سے 28 دن تک دن میں ایک ایمپول کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ 80 کلو کے شخص کو روزانہ پانچ ملی لیٹر کے چار ایمپولز کی ضرورت ہوتی ہے۔

پشاور میں ایم ایس ایف کے طبی عملے کی رکن ڈاکٹر حلیمہ خالد نے کہا کہ ایم ایس ایف نے 2018 سے اب تک خیبر پختونخوا میں تقریباً 12 ہزار اور 2008 سے بلوچستان میں 37 ہزار 927 لشمینیا کے مریضوں کا علاج کیا ہے۔

’مریضوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود ایم ایس ایف خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں سی ایل سرگرمیوں کو بڑھانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر حلیمہ نے بتایا کہ زیادہ تر مریضوں میں نفسیاتی دباؤ کی علامات کو دیکھتے ہوئے اور انہیں مناسب مشاورت فراہم کرنے کے لیے ایم ایس ایف پشاور کے نصیر اللہ خان بابر میموریل ہسپتال میں ایک ماہر نفسیات کی تعیناتی کا بھی منصوبہ بنا رہا ہے۔

ضلع کرک میں جہاں تقریباً 10 ہزار لشمینیا کیسز کا ڈھیر لگا ہوا ہے، فوکل پرسن ڈاکٹر اسد ظہور نے کہا: ’ڈرماٹولوجسٹ سے لشمینیا کے انفیکشن کے علاج کا بندوبست کرنے کے علاوہ حکومت کو مریضوں کے لیے نفسیاتی مشاورت کا انتظام کرکے ان کی ذہنی صحت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔‘

ستمبر 2023 تک تقریباً پانچ ہزار 300 نئے اور فالو اپ کے طور پر مریض باقی ہیں۔

اسد نے بتایا کہ ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے وہ مریضوں کو جلد صحت یاب ہونے کی امید دلانے کے لیے کچھ تسلی کے الفاظ کہتے ہیں لیکن مریض کے ذہنوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے ماہرینِ نفسیات کی مناسب مشاورت ضروری ہے۔

انہوں نے پبلک سیکٹر کے ہسپتالوں میں کاسمیٹک ڈیفارمیٹی کا مفت علاج کرنے کا بھی مشورہ دیا کیونکہ زیادہ تر مریض غریب ہیں اور پلاسٹک سرجری کے متحمل نہیں ہیں۔

انٹیگریٹڈ ویکٹر کنٹرل پروگرام کے ساتھ کام کرنے والے اجمل خان نے مشورہ دیا کہ ’لشمینیا کے ہاٹ سپاٹ زیادہ تر خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں ہیں، خاص طور پر نئے ضم ہونے والے اضلاع میں جہاں کوئی ماہرِ حیاتیات نہیں ہے اور حکومت کو اس انفیکشن کو پھیلانے کے ذمہ دار ویکٹرز کی روک تھام کے لیے ان خالی اسامیوں کو پُر کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ لوگوں میں احتیاطی تدابیر جیسے جالیوں کے استعمال، ریپیلنٹ، کیڑے مار دوا، فیومیگیشن، کچرے کے انتظام کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے تاکہ مکھیوں کی افزائش کے مقامات کو کم کیا جا سکے اور مناسب حفظان صحت کا خیال رکھا جائے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس