صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر کے مقامی ہسپتالوں کے مطابق موسم بدلتے ہی علاقے میں پھوڑوں کی بیماری لشمینیا کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آرہا، جبکہ میڈیکل سٹورز پر اس کی دوائی دستیاب نہیں اور صرف ’فارن ایڈ‘ پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل کردہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق صرف فروری اور مارچ کے دوران ضلع خیبر میں لشمینیا کے مجموعی طور پر 517 کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں سے 255 تحصیل لنڈی کوتل، 60 باڑہ اور 202 جمرود میں رپورٹ ہوئے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال لنڈی کوتل میں لشمینیا وارڈ کے انچارج احسان اللہ آفریدی کا کہنا تھا کہ ’مریضوں کی تعداد میں اضافے ہو رہا ہے اور تمام کو مفت سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔‘
موجودہ صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے ضلع خیبر میں حکومتی وکٹر پروگرام کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر خالد داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’لشمینیا کا علاج جس انجیکشن سے کیا جاتا ہے وہ اس وقت ضلع خیبر کے تمام ہسپتالوں میں موجود ہے، تاہم کسی بھی وقت اس کی کمی پیش آسکتی ہے اور ایسی صورت میں وہ صرف عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) پر ہی انحصار کر سکیں گے۔‘
’فارن ایڈ پر انحصار ہمارے لیے باعث تشویش رہتا ہے، کیونکہ کسی بھی وقت اس کی کمی پڑ سکتی ہے اور دوسری جانب سے امداد کی فراہمی میں بھی تاخیر ہو سکتی ہے۔
’اس بیماری میں مریض کو فوری طور پر ہسپتال لے جانا چاہیے تاکہ مرض کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔‘
اضافے کے اسباب
وکٹر پروگرام کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر خالد داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’صرف ایک ماہ میں پانچ سو کیسز ایک بڑی تعداد ہے۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ لشمینیا پچھلے کچھ سالوں سے وبا کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے، جو زیادہ تر افغانستان، بلوچستان، قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں پائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر داوڑ نے بتایا کہ ’اس کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں، جن میں ڈیویلپمنٹ کی عدم موجودگی، شعور کی کمی، دوائیوں کی عدم دستیابی وغیرہ شامل ہیں۔‘
’ایک وجہ یہ ہے کہ جیسے ہی موسم میں تبدیلی آتی ہے تو وکٹر کو دوبارہ پنپنے کا موقع ملتا ہے اور ایسے کیسز میں اضافہ ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’لشمینیا کا شکار کوئی بھی شخص ہوسکتا ہے، تاہم زیادہ تر بچوں کے متاثر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کھلے میدانوں میں کھیلتے ہیں، جہاں لشمینیا پھیلانے والےمچھر ‘سینڈ فلائی’ پایا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر خالد داوڑ نے کہا کہ ’جانوروں کے چوپالوں، پرانی عمارتوں کے کونوں کھدروں میں سینڈ فلائی کو مارنے سے اور صاف ستھرا ماحول رکھنے سے اس مرض کا خاتمہ ممکن ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’لشمینیا کی جو قسم پاکستان میں پائی جاتی ہے، اس سے اموات نہیں ہوتیں اور یہ بیماری صرف جلد تک ہی محدود رہتی ہے۔‘
ضلع خیبر کے سماجی کارکن اور صحافی راحت شنواری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پچھلے سال انہوں نے کلاس فور ایسوسی ایشن ڈسٹرکٹ ہسپتال لنڈی کوتل کے تعاون سے تقریباً ایک ہزار لشمینیا کے مریضوں کا کامیاب علاج کروایا تھا۔‘
ضلع خیبر ہی کے ایک اور سماجی کارکن ڈاکٹر وہاب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے ضلع میں لشمینیا کے مریضوں کی حالت ابتر اس لیے ہو گئی ہے کہ زیادہ لوگ گھریلو ٹوٹکوں پر اکتفا کر لیتے ہیں اور ہسپتال نہیں جاتے۔