بنگلہ دیش کے عوام آج اتوار کو اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کے بائیکاٹ کے بعد یہ امکان واضح ہے کہ شیخ حسینہ پانچویں بار ملک کی وزیراعظم بن جائیں گی۔
حسینہ واجد کی قیادت میں ایک ایسے ملک نے غیر معمولی معاشی ترقی کی ہے جو کبھی غربت کا شکار تھا، لیکن ان کی حکومت پر انسانی حقوق کی بہت زیادہ خلاف ورزیوں اور حزب اختلاف پر بے رحمانہ کریک ڈاؤن کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حسینہ واجد کی پارٹی جن نشستوں پر الیکشن لڑ رہی ہے وہاں اسے کسی طاقتور حریف کا سامنا نہیں ہے، لیکن جماعت نے چند نشستوں پر امیدوار کھڑے نہیں کیے جو بظاہر مقننہ کو یک جماعتی ادارہ قرار دیے جانے سے بچنے کی ایک واضح کوشش ہے۔
ووٹ ڈالنے کا عمل شام پانچ بجے تک جاری رہے گا اور نتائج آدھی رات کے بعد متوقع ہیں تاہم حسینہ واجد کے مخالفین نے ہفتے کے آخر میں عام ہڑتال کا اعلان کیا ہے اور عوام پر زور دیا ہے کہ وہ ووٹ نہ ڈالیں۔
کچھ رائے دہندگان کے بقول انہیں دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے حکمران عوامی لیگ کو ووٹ دینے سے انکار کیا تو ان کا سرکاری بینیفٹ کارڈ ضبط کر لیا جائے گا۔
64 سالہ لال میاں نے وسطی ضلع فرید پور میں اے ایف پی کو بتایا، ’انہوں نے کہا کہ اگر میں نے ووٹ نہیں دیا تو وہ مجھ سے یہ چھین لیں گے۔
’انہوں نے کہا کہ چونکہ سرکار ہمیں کھلاتی ہے، اس لیے ہمیں انہیں ووٹ دینا ہوگا۔‘
حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور دیگر جماعتوں نے گذشتہ سال کئی ماہ تک احتجاج کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ حسینہ واجد ووٹنگ سے قبل مستعفی ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پارٹی کا کہنا ہے کہ کریک ڈاؤن میں بی این پی کی پوری مقامی قیادت سمیت تقریباً 25 ہزار اپوزیشن کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 11,000 ہے۔
انتخابات سے چند روز قبل بھی کہیں مظاہرے جاری رہے جن میں حزب اختلاف کے چند سو حامی بھی شامل تھے جنہوں نے جمعے کو وسطی ڈھاکہ میں مارچ کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ 75 ہزار پولیس افسران اور انصار ریزرو فورس کے پانچ لاکھ 15 ہزار سے زائد ارکان کو ووٹنگ کے دوران نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔
دنیا کے آٹھویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک کی سیاست پر طویل عرصے سے ملک کے بانی رہنما کی بیٹی حسینہ واجد اور سابق فوجی حکمران کی اہلیہ خالدہ ضیا کے درمیان مخالفت چھائی ہوئی تھی۔
76 سالہ حسینہ واجد 2009 میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے فیصلہ کن فاتح رہی ہیں اور اس کے بعد ہونے والے دو انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں اور دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تقریباً 12 کروڑ ووٹرز اس بار 300 براہ راست منتخب پارلیمانی نشستوں کے لیے ووٹ ڈالیں گے جن کے لیے تقریباً 2,000 امیدواروں میں سے انتخاب ہوگا۔
اس بار 436 آزاد امیدوار ہیں۔ یہ 2001 کے بعد آزاد امیدواروں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
بی این پی کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ نے الیکشن کو قابل اعتبار بنانے کی کوشش کے لیے آزاد امیدواروں کے طور پر ’ڈمی‘ امیدوار کھڑے کیے ہیں، جبکہ حکمران جماعت اس دعوے کی تردید کرتی ہے۔
ووٹنگ کے فوراً بعد گنتی شروع ہو جائے گی اور ابتدائی نتائج پیر کی صبح تک متوقع ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔