میراتھن میں جادوئی ’سپر جوتے‘ کیا مسائل پیدا کر رہے ہیں؟

رنر آصفہ نے زبردست فتح کے بعد اس جوتے کو بوسہ دیا اور اسے سر سے اوپر اٹھا کر کہا ’مجھے اس سے قبل ایسا احساس کبھی نہیں ہوا۔‘

ٹائیگسٹ آصفہ کے مطابق ’یہ پرانے سکول کے ریسنگ فلیٹس سے بہت بڑا فائدہ دیتا ہے۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ ہر ایک کے پاس یہ موقع ہے۔‘ (ٹائیگسٹ آصفہ انسٹاگرام اکاونٹ)

اگر آپ کسی بھی ٹریک ایونٹ میں شریک ایتھلیٹ کو کوئی ایسی چیز پیش کرتے ہیں جو انہیں فوری طور پر چار فیصد مزید تیز کر سکتی ہے تو وہ شاید یہ سمجھیں کہ آپ انہیں کارکردگی بڑھانے والی کوئی دوا کی پیش کش کر رہے ہیں۔

لیکن اگر آپ اس بات پر اصرار کریں کہ آپ جو کچھ پیش کر رہے ہیں وہ بالکل قانونی ہے اور یہاں تک کہ کھیلوں کے تمام متعلقہ حکام نے اسے قبول اور ریگولیٹ کیا ہے تو وہ حیران ہوں گے۔

مزید یہ کہ آپ کی طرف سے پیش کی جانے والی حیرت انگیز چیز کی قیمت چند ہزار روپوں یا چند سو پاؤنڈ سے زیادہ نہیں۔

ایتھلیٹ سیکنڈوں میں یہ رقم ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا کیونکہ رننگ ٹائم میں چار فیصد بہتری ایک بہت بڑا فائدہ ہے، جسے حاصل کرنے میں مہینے یا سال لگ سکتے ہیں۔

گذشتہ برس برلن میراتھن دیکھنے والے کسی بھی شخص نے اس چیز کو عملی طور پر دیکھا ہوگا۔

اسے ایتھوپیا کی رنر ٹائیگسٹ آصفہ کے پاؤں پر دیکھا جا سکتا ہے، جنھوں نے دو گھنٹے 11 منٹ اور 53 سیکنڈ میں ریس جیتی۔ اس طرح دو منٹ 11 سیکنڈ کے بہتری سے انہوں نے خواتین کے عالمی ریکارڈ کو اڑا کر رکھ دیا۔ 

ٹائیگسٹ آصفہ نے جو پہن رکھا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ Adizero Adios Pro Evo 1s کا ایک جوڑا تھا، جسے ایڈیڈاس نے تیار کیا ہے اور اس کی قیمت 400 پاؤنڈز ( تقریبا ایک لاکھ 40 ہزار روپے) ہے۔ 

اگرچہ یہ قیمت آپ کے اوسط پارک میں دوڑ لگانے والے جوتے سے بہت زیادہ لگ سکتی ہے، کسی بھی پیشہ ور ایتھلیٹ کے لیے چاہے وہ عالمی کلاس کا کھلاڑی نہ بھی ہو یہ قیمت ایک اچھا سودا ہے۔

کھیلوں کی سائنس میں ایسے جوتے کو ٹارز یا TARS (تکنیکی طور پر جدید جوتے) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسے زیادہ تر سپر شو کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

ان ٹرینرز کے بڑے سپنجی تلوے ہوتے ہیں، جن میں اکثر کاربن فائبر پلیٹیں لگی ہوتی ہیں جو سادہ الفاظ میں اگر سمجھائیں تو آپ کو بہت تیز دوڑنے میں مدد دیتی ہیں۔

اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آصفہ ایک غیرمعمولی باصلاحیت ایتھلیٹ ہیں لیکن 1.6 فیصد کے مارجن سے جس بات نے انہیں عالمی ریکارڈ توڑنے کے قابل بنایا اس کے بارے میں بعض سنگین سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آیا اس طرح کے جوتے کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔

پچھلے کچھ سالوں کے دوران نائیکی کے گراؤنڈ بریکنگ ویپر فلائی اور پھر ایلفا فلائی جوتوں کی آمد کے بعد سے ریکارڈ حیران کن شرح سے اور اتنے ہی حیران کن مارجن سے ٹوٹ رہے ہیں۔ 

مثال کے طور پر دسمبر 2020 تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ریکارڈ مردوں کی ہاف میراتھن کا وقت 58 منٹ رہے گا۔ اسے کیبی واٹ کینڈی نے 57 منٹ 32 سیکنڈ میں ختم کر دیا۔ 

میراتھن کا کوئی بھی شوقین یقیناً جانتا ہوگا کہ ایلیوڈ کیپچوگے نے دنیا کی پہلی دو گھنٹے کی میراتھن اکتوبر 2019 میں سپر شوز پہن کر دوڑی تھی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ یہ ریکارڈ سرکاری طور پر تسلیم شدہ نہیں کیونکہ حکام کے لیے ان کے نائیکی ایلفا کچھ زیادہ ہی سپر تھے۔

اس سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ جوتے واقعی کتنے تباہ کن حد تک موثر ہیں۔ ایک شوقین اور بہت غیر پیشہ ور رنر کے طور پر میں خود اپنے تجربے سے یہ جانتا ہوں۔ 

یہ تب ہی تھا جب میں نے ویپر فلایز پہننا شروع کیے، جس کی قیمت 200 پاؤنڈز (تقریباً 70 ہزار پاکستانی روپے) سے زیادہ تھی، کہ میرے 5k اور 10k ریکارڈ راتوں رات رفوچکر ہوگئے۔ 

میرا 5k 19 منٹ 21 سیکنڈ سے 18 منٹ 29 اور پھر 18 منٹ سے نیچے آگیا، جب کہ میرا 10k 40 منٹ 32 سیکنڈ سے 38 منٹ 42 سیکنڈ تک 38 منٹ سے کم ہوگئے۔ 

یہ چار فیصد سے زیادہ کے ابتدائی مارجن تھے جو تقریباً بالکل وہی اعداد و شمار ہیں جو نائیکی کا دعویٰ ہے کہ اس کے جوتے کسی کی 'معاسی حالت' کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایڈیڈاس اپنے سپر شوز کے لیے بھی اسی طرح کے بے تکے دعوے کرتا ہے، یہ کہہ کر کہ وہ 'پہننے والوں کی معیشت' کو بہتر بناتے ہیں، اور 'دوڑنے والوں کو زیادہ توانائی' فراہم کرتے ہیں۔

اس طرح کی زبان بنیادی طور پر ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ جوتے بنیادی طور پر سپرنگز ہیں جو دوڑنے والے کو مزید تیز چلاتے ہیں۔

انہیں پہننے سے آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ چاند پر چل رہے ہیں اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ان جوتوں کو اپنانے کو کبھی کبھی ’مکینیکل‘ یا ’تکنیکی ڈوپنگ‘ کہا جاتا ہے۔

بعض حلقوں میں جاری گفتگو میں یہ اصطلاح کہیں زیادہ غیر رسمی اور صریح ہے کیونکہ انہیں اکثر مذاق میں اور جان بوجھ کر ’دھوکے باز کے جوتے‘ بھی کہا جاتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ وہ ایک ایتھلیٹ کے لیے جرم سے لطف اٹھانے کے مترادف ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ آپ کے وقت کو بہت زیادہ بڑھاتے ہیں لیکن چونکہ وہ قانونی ہیں لہذا ہر کوئی انہیں پہن رہا ہے۔ لہذا آپ کو بھی انہیں پہننا ہوگا۔

کیا وقت کو واپس لوٹانا اور سپر جوتے پر پابندی لگانا ممکن ہے؟ یقیناً بہت دیر ہو چکی ہے کیونکہ مقابلوں میں ان جوتوں کی اجازت طویل عرصے سے دی گئی اور پابندی سے یہ ناقابل جواب سوال بھی اٹھے گا کہ جوتے کی کون سی ٹیکنالوجی جائز ہے۔

جوتے کے ساتھ ساتھ غذائی سائنس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یا فزیوتھراپی؟ وہ کون سا نقطہ ہے جہاں سے ایتھلیٹک کارکردگی ہمت اور کوشش کی بجائے ٹیکنالوجی سے زیادہ مدد لینے لگتی ہے؟

اگرچہ ہم شاید کبھی نہ جان سکیں لیکن جو چیز یقینی طور پر پہچانی جا سکتی ہے وہ یہ کہ جب ٹیکنالوجی اصل اہمیت حاصل کر لیتی ہے۔

آصفہ کا ریکارڈ ایک حیرت انگیز چیز ہے لیکن اگر ان کے جوتے اتنے سپر نہ ہوتے تو کیا وہ عالمی ریکارڈ کو توڑ سکتی تھیں؟ دل کی گہرائی میں ہم سب اس کا جواب جانتے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل