سپریم کورٹ: سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کی سزائے موت برقرار

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے سنگین غداری کے کیس میں خصوصی عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو سنائی گئی سزا کودرست قرار دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

سابق پاکستانی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف 16 جنوری 2011 کو خبر رساں ادارے روئٹرز کو انٹرویو دے رہے ہیں (روئٹرز)

پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزائے موت کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے سنگین غداری کے کیس میں خصوصی عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو سنائی گئی سزا بدھ کے روز اپنے فیصلے میں درست قرار دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان، اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل تھے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 6 کے تحت یہ قائم کیے گئے سنگین غداری کے مقدمے کو سننے والی خصوصی عدالت نے  دسمبر 2019 میں  سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو تین نومبر 2007 کو ملک کا آئین توڑنے کی پاداش میں سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا جسے بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے  جسٹس مظاہر علی نقوی کی سربراہی میں بننے والے فل بینچ نے 13 جنوری 2020 کو خصوصی عدالت کے قیام کو ہی غیر آئینی و غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ خصوصی عدالت کے قیام کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد اس عدالت کی جانب سے دی گئی سزا بھی کاالعدم ہو گئی تھی۔

خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل لاہور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں 16 جنوری 2020 کو اپیل دائر کی گئی تھیں۔ پرویز مشرف کی اپیل  سپریم کورٹ میں گزشتہ برس نومبر 2023 کو سماعت کے لیے مقرر ہوئی تھی۔

پرویز مشرف کی وفات کے باعث اپیل غیر موثر ہے: عدالت

عدالت نے اپیل خارج کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ’مشرف کا انتقال ہو چکا ہے۔ مشرف کی فیملی سے کوئی پیروی کے لیے سامنے نہیں آیا، اپیل اب غیر موثر ہو چکی ہے اس لیے خارج کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔‘

پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ بننے کی وجوہات:

سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے تین نومبر 2007 میں آئین کو معطل کرتے ہوئے ملک میں ہنگامی حالت (ایمرجنسی) نافذ کی تھی۔ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو بھی سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کے بعد ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی اور اس موقعے پر انہوں نے سپریم کورٹ کے ججوں کو ان کی رہائش گاہوں پر نظر بند بھی کر دیا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان نے بعد میں جنرل مشرف کے 1999 کے عمل کی توثیق کر دی تھی اور انہیں بحیثیت چیف ایگزیکٹیو 1973 کے آئین میں ترمیم کی اجازت بھی دے دی تھی۔

خصوصی عدالت کا قیام اور آرٹیکل چھ کا مقدمہ:

پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران قائم کیا گیا تھا اور 20 نومبر 2013 کو تین رکنی خصوصی عدالت قائم کی گئی تھی۔

خصوصی عدالت نے 31 مارچ 2014 کو مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کا فرد جرم عائد کیا تھا۔

اس وقت کی حکومت نے معروف وکیل اکرم شیخ کی سربراہی میں پراسیکیوشن ٹیم تشکیل دی تھی۔

پرویز مشرف دو مرتبہ نیشنل لائبریری میں قائم خصوصی عدالت پیش ہوئے 31 مارچ 2014 کو ان پر فرد جرم عائد ہوئی جس کے بعد پھر وہ عدالت پیش نہیں ہوئے، بعد ازاں مارچ 2016 میں وہ والدہ سے ملنے طبعی بنیادوں پر دبئی چلے گئے۔ بارہا عدالتی نوٹسز کے باعث انہیں 19 جون 2016 کو خصوصی عدالت نے انہیں مفرور قرار دے دیا تھا۔

پھانسی کی سزا کا حکم:

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ آرٹیکل چھ کی کارروائی کے لیے بنائی جانے والی خصوصی عدالت کے بینچ کے سربراہ تھے۔ سندھ ہائی کورٹ سے جسٹس نذر اکبر اور لاہور ہائی کورٹ سے جسٹس شاہد کریم بھی بینچ میں شامل تھے۔

جسٹس سیٹھ وقار اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیا تھا جبکہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ ’استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔‘ مزید کہا کہ سنگین غداری کی تعریف پاکستان کے آئین اور قانون میں واضح نہیں ہے اس لیے پھانسی کی سزا نہیں دی جاسکتی۔‘

عدالت نے 17 دسمبر 2019 کو آئین شکنی کیس میں سابق صدر و آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو نہ صرف سزائے موت کی سزا سنائی تھی بلکہ فیصلے کے پیرا 66 میں لکھا گیا تھا کہ 'ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ وفات پاجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے۔'

اس فیصلے پر افواج پاکستان کے ترجمان کی جانب سے بھی بیان سامنے آیا تھا جس پر انہوں نے کہا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے اور یہ کہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواجِ پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے۔'

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’فیصلے کا پیرا 66 کسی طور سے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا اور یہ آرٹیکل 209 کے تحت ججز کے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان