جب برصغیر والوں کو پہلی بار ووٹ ڈالنے کا موقع ملا

1920 وہ تاریخ ساز سال ہے جب برصغیر ہند و پاک کے باشندوں کو پہلی بار ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔

ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار 1920 میں ایسا واقعہ پیش آیا جو اس سرزمین کے کروڑوں باشندوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ تھا پولنگ بوتھ میں جا کر اپنی مرضی کے نمائندوں کو ووٹ کے ذریعے منتخب کرنا۔

اس سے قبل یہاں پنچایتی نظام رائج تھا، جس میں کسی نہ کسی شکل میں عوام کی نمائندگی ہوا کرتی تھی، مگر اسے مکمل جمہوریت کہنا درست نہیں ہو گا کیوں کہ یہ نظام بےضابطہ تھا اور اس کے کوئی مستقل قوانین رائج نہیں تھے۔ مزید یہ کہ طاقتور جاگیردار یا سرکاری عمال اس نظام کی بانہیں بڑی آسانی سے اپنی مرضی کے مطابق مروڑ سکتے تھے۔

ہندوستانی تاریخ پر ایک نظر دوڑانے سے پتہ چلتا ہے کہ رگ وید میں دیوانِ عام اور دیوانِ خاص دونوں میں پنچایت کا ذکر ملتا ہے۔ 500 ق م سے چندر گپت موریہ کے عہد تک پنچایت کو یہاں خاص درجہ حاصل تھا، جس کے لیے اگرچہ ووٹ کا تصور نہیں تھا مگر جمہور کی قبولیت کی بغیر پنچایت کی عمل داری اپنا جواز کھو دیتی تھی۔

پھر ہندوستان میں قدم رکھتے ہیں انگریز۔ آج پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں جمہوریت کی جو شکل نظر آتی ہے وہ انگریز کی دی ہوئی ہے اور اس کی جڑیں ہمیں 1920 کے انتخابات میں ملتی ہیں، جن میں ہندوستانیوں کو پہلی بار ووٹ کا محدود حق ملا تھا۔

ایسا نہیں تھا کہ تاج برطانیہ نے ہندوستان کو بغیر کسی قانون کے چلایا ہو۔ 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد کمپنی کی جگہ براہِ راست تاج برطانیہ کا جھنڈا لہرایا جانے لگا تو یہاں کاروبارِ سلطنت چلانے کے لیے مخصوص قوانین روشناس کروائے گئے۔

قانون حکومتِ ہند 1858، پھر اس میں مزید ترامیم کرکے قانون مجالسِ ہند 1861 رائج ہوا، جس میں تمام اختیارات کا منبع گورنر جنرل کی کونسل تھا۔ کونسل کے اراکین کی تقرری کا اختیار بھی گورنر کی صوابدید پر تھا۔

1892 میں اس میں مزید ترامیم کی گئیں جس میں پہلی بار مرکزی اور صوبائی کونسلوں میں مقامی باشندوں کی تقرری کا راستہ کھلا۔ 1885 میں کانگریس اور 1906 میں مسلم لیگ کے قیام سے ہندوستان میں سیاسی بیداری کی مہم شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں صوبائی اور مرکزی سطح پر زیادہ سے زیادہ عوامی شراکت کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔

برطانوی پارلیمنٹ نے پہلی بار 1909 کے انڈین کونسلز ایکٹ کے ذریعے مقامی باشندوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ مقامی سطح پر اپنے نمائندوں کا چناؤ کر سکیں جسے ’منٹو مارلے‘ اصلاحات کا نام دیا گیا۔ لارڈ منٹو اس وقت انڈیا کے گورنر جنرل تھے جبکہ لارڈ مارلے برطانوی کابینہ میں وزیرِ ہند تھے۔

اس ایکٹ کے ذریعے 68 ممبران پر مشتمل ایک قانون ساز کونسل تجویز کی گئی، جن میں سے صرف 27 منتخب شدہ تھے اور جنہیں عام آدمی نے نہیں بلکہ مخصوص افراد نے منتخب کرنا تھا جن میں میونسپل کمیٹیوں کے ارکان، ضلعی اور مقامی بورڈز، یونیورسٹیوں، چیمبر آف کامرس اور تاجروں کی تنظیموں کے علاوہ جاگیردار اور چائے کے کاشت کار شامل تھے۔

یہ نمائندگی عوامی راج کے لیے نہیں بلکہ تاج برطانیہ کی حکمرانی میں سہولت پیدا کرنے کے لیے دی گئی تھی۔ اس ایکٹ میں کچھ نشستیں صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کی گئی تھیں۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ دراصل منٹو مارلے اصلاحات نے ہی ہندوستان میں سیاسی تقسیم کی بنیاد رکھ دی تھی۔

ہندوستانی سرزمین پر پہلے عام انتخابات

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ہندوستان میں ہزاروں سال سے بادشاہتیں، راجواڑے، نوابی نظام قائم رہا، اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے حکومت کی، جب کہ 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد انگلستان نے ہندوستان کو اپنی نوآبادی بنا لیا۔

اس دوران دنیا کے متعدد علاقوں میں جمہوریت قائم ہو گئی۔ 1920 میں انگریزوں نے پہلی بار ہندوستان کے عوام کو موقع دیا کہ وہ محدود پیمانے پر ہی سہی، مگر انتخابات جیسے بنیادی جمہوری عمل میں حصہ لے سکیں۔

1916 میں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان میثاق لکھنؤ ہوا، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ برطانیہ ہندوستان کے عوام کے لیے خود مختار حکومت کا اعلان کرے۔ گورنمنٹ انڈیا ایکٹ 1915 میں مزید ترامیم کر کے انہیں 1919 میں مونٹاگو چیمسفورڈ اصلاحات کا نام دیا گیا۔

کہا گیا کہ تاج برطانیہ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد ہندوستانی عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کر رہا ہے۔ ایڈون مانٹاگو اس وقت وزیرِ ہند تھے جبکہ لارڈ چیمسفورڈ گورنر جنرل ہندوستان تھے۔ اس ایکٹ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھوں کے لیے بھی جداگانہ انتخابات کو روشناس کروایا گیا۔

مرکز میں ایک دو ایوانی مقننہ بنائی گئی۔ کونسل آف سٹیٹ جسے ایوانِ بالا کا درجہ حاصل تھا، کے ارکان کی تعداد 60 تھی، جن میں سے 34 منتخب شدہ تھے جبکہ 16اراکین کو گورنر جنرل کی جانب سے نامزد کیا گیا تھا۔

اس کا دورانیہ پانچ سال تھا جبکہ مرکزی قانون ساز اسمبلی کو ایوانِ زیریں کا درجہ دیا گیا۔ پہلی بار منتخب نمائندوں کو دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل تھی۔ مرکزی قانون ساز اسمبلی کے 145 اراکین میں سے 105 منتخب شدہ تھے جبکہ 40 کو نامزد کیا گیا تھا۔

اس اسمبلی کا دورانیہ تین سال کا تھا لیکن گورنر اس دورانیے میں توسیع کر سکتا تھا۔ مرکزی پارلیمنٹ کے ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے لیے 637 سیٹیں بھی مختص کی گئی تھیں جن میں سے 440 پر مقابلہ ہوا جبکہ 188 اراکین بلا مقابلہ منتخب قرار پائے۔ صوبائی اسمبلیوں میں 38 سیٹیں گوروں کے لیے مخصوص تھیں۔

1920 کے انتخابات میں ووٹ کا محدود اختیار

1921 کی مردم شماری کے تحت ہندوستان کی آبادی 25 کروڑ سے زائد تھی مگر ہندوستان میں جن افراد کو کونسل آف سٹیٹ کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، ان ووٹروں کی تعداد 17 ہزار اور ایوانِ زیریں کے لیے ووٹروں کی تعداد 11 لاکھ 28 ہزار تھی۔

گویا دونوں ایوانوں کے اراکین کو منتخب کرنے کا اختیار مخصوص لوگوں کو ہی حاصل تھا اور صرف وہی لوگ ووٹ دے سکتے تھے، جو کسی جائیداد کے مالک ہوں، انکم ٹیکس یا میونسپل کمیٹی کے ٹیکس دہندگان ہوں۔

ووٹر کے ساتھ ساتھ نمائندگان کے لیے زیادہ کڑی شرائط تھیں کہ صرف وہی لوگ امیدوار بن سکتے تھے جو خوش حال جاگیر دار یا تاجر ہوں، اس سے قبل وہ مرکزی یا صوبائی سطح پر قانون سازی کا تجربہ رکھتے ہوں، میونسپل کارپوریشن یا کسی یونیورسٹی سینیٹ کے رکن ہوں۔ اس طرح 1919 کا ایکٹ بھی ہندوستانی لوگوں کی نمائندگی کے دعوؤں کی نفی کرتا تھا۔

گاندھی کے بائیکاٹ کے باوجود انتخابات ہوئے

کرم چند گاندھی ہندوستانیوں کو مکمل داخلی خود مختاری دینے کے حامی تھے۔ انہوں نے نہ صرف ان عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا بلکہ بعد ازاں عدم تعاون کی تحریک بھی شروع کر دی۔ اس کے باوجود یہ انتخابات ہوئے۔

مرکزی مقننہ میں ’ڈیموکریٹک پارٹی‘ اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی، جس کے 48 اراکین منتخب ہوئے جبکہ دوسری جماعتوں اور آزاد اراکین کی تعداد 47 تھی۔ جواہر لال نہرو بھی پنجاب سے مرکزی کونسل کے رکن منتخب ہو گئے۔

نئی مقننہ کا افتتاحی اجلاس نو فروری 1921 کو ہوا جس میں ملکہ وکٹوریہ کے بیٹے ڈیوک آف کناٹ نے بطور خاص شرکت کی تھی۔ مرکزی مقننہ کو برطانوی ہند کی تمام رعایا اور تاج کے ملازمین کے لیے قوانین بنانے کے اختیارات دیے گئے مگریہ ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی تھی جو وزیر برائے ہند یا گورنر جنرل سے متعلق ہو، اسی طرح مالی معاملات، مذہب، مسلح افواج اور خارجہ تعلقات بھی اس کے دائرہ اثر سے باہر تھے۔

انتخابات کے نتیجے میں 25 رکنی مرکزی کابینہ بنائی گئی جس میں سے 21 انگریز وزیر تھے۔ اس طرح ان انتخابات کے ذریعے تاجِ برطانیہ نے اپنے وفاداروں کو نمائندگی دے کر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ہندوستان کے معاملات ہندوستانیوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں مگر عملاً نہ تو اصل اختیارات انہیں حاصل تھے اور نہ ہی عام ہندوستانیوں کو ووٹ کا حق حاصل تھا۔

اسی وجہ سے کانگریس اور مسلم لیگ ایک پلیٹ فارم پر آئیں اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہندوستان کو بھی برطانوی نوآبادیات میں وہی سیاسی حقوق دیے جائیں جو آسٹریلیا، کینیڈا اور جنوبی افریقہ کو دیے گئے ہیں، جس میں بالغ رائے دہی اور دوہرے انتخاب کا حق بھی شامل ہو اور اقلیتوں کے لیے الگ سے سیٹیں مختص ہوں۔

1920 کے پہلے انتخابات نے ہندوستان میں سیاسی بیداری کی راہ ضرور ہموار کی، جس پر آگے چل کر آزادی کا سفر شروع ہوا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ