’میرے والد خوف سے ہسپتال نہیں گئے کیونکہ وہ اویغور مسلمان ہیں‘

شدید بیمار میرے والد کو خوف تھا کہ اگر ہسپتال کے عملے کے کسی رکن نے ہمارے اویغور مسلمان ہونے کے بارے میں چینی سفارتخانے کو بتا دیا تو ہمیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ایک اویغور مسلمان خاتون  چینی سفارت خانے کے باہر احتجاج کر رہی ہیں۔ (تصویر: اے ایف پی)

ایک ہفتے قبل میرے والد شدید بیمار ہوگئے۔ وہ اتنے بیمار ہوئے کہ انہوں نے کام کرنا بند کر دیا۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جانے کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے جانے سے انکار کر دیا۔

ان کے انکار کی وجہ نے مجھے نئے خوف میں مبتلا کر دیا۔ یہ وہ خوف ہے جس کا ہماری طرح کے بہت سے اویغور مسلمانوں کو سامنا ہے۔

میرے والد کو خوف تھا کہ اگر ہسپتال کے عملے کے کسی رکن نے ہمارے اویغور مسلمان ہونے کے بارے میں چینی سفارتخانے کو بتا دیا تو ہمیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔

وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمارے خاندان کو بھی دوسرے لاکھوں اویغور خاندانوں کی طرح ’حراستی مراکز‘ میں جانا پڑے۔ ہسپتال میں علاج کی بجائے انہوں نے گھر پر ہی علاج پر اصرار کیا۔ انہوں نے ہماری سلامتی کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگانے پر اصرار کیا۔ ان کی طبیعت بہتر ہونے میں دو ہفتے لگے۔

اس تکلیف کے وقت کئی دن والد کی تیمارداری میں گزارنے کے بعد میں گھر سے باہر نکلی تو میں نے دیکھا کہ ایک گروپ احتجاج کر رہا ہے۔ مجھے غصہ آ گیا۔ یہ لوگ کشمیر کے حق میں احتجاج کر رہے تھے لیکن اس تکلیف کے پیچھے جو وجوہات میں نے محسوس کیں، آپ کی سوچ سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔

اُس بدقسمت دن جب بھارت نے آرٹیکل 370 منسوخ کیا دنیا بھر میں لوگوں، خاص طور پر مسلم امہ نے بولنا شروع کر دیا۔ پاکستان متحرک ہو گیا اور دنیا سے کہا کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نسل کشی بند کرائے۔ پلک جھپکتے میں اسلامی تعاون تنظیم نے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا تاکہ کشمیر میں ذرائع مواصلات کی مکمل بندش کی مذمت کی جائے۔ دنیا اس صورت حال کے خلاف متحد ہو کر کھڑی ہو گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں ان تمام باتوں سے اتفاق کرتی ہوں۔ کسی کو حقوق کی محرومی کی اذیت سے نہیں گزرنا چاہیے۔ کسی کو ریاست کی جانب سے خاندان کے ساتھ رابطے کی سہولت سے محروم کر دینا درست نہیں ہے۔

لیکن میں نے اپنے والد کو اس وجہ سے تکلیف برداشت کرتے ہوئے دیکھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ چینی حکومت ہمیں تشدد کا نشانہ بنائے۔ اس صورت حال کو دیکھنے کے بعد میرا دل جل کر رہ گیا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اکثریتی مسلمان آبادی والے ملکوں نے ہمارے لیے بھی آواز بلند کیوں نہیں کی؟

میرے والد نہیں چاہتے کہ ہم بند دیواروں کے پیچھے غائب ہو جائیں اور دوبارہ کبھی نہ نظر آئیں۔ لیکن ایک بار پھر پاکستان، انڈونیشیا اور پوری اسلامی دنیا نے منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اویغور مسلمانوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ پاکستان اور دوسرے بہت سے ملکوں نے جن میں متحدہ عرب امارات اور بحرین شامل ہیں، حال ہی میں چین کو انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیا ہے۔ اس حقیقت کے باجود کہ اویغور علاقے، ہانگ کانگ اور تبت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ آج اسلامی ملکوں کی خاموشی کی وجہ سے لاکھوں ایغور مسلمان مصیبت میں گرفتار ہیں۔

چین کا صوبہ سنکیانگ کبھی خود مختار علاقہ نہیں رہا۔ یہ صرف کاغذوں میں خود مختار ہے۔ چینی باشندوں کو علاقے میں آباد ہونے اور ہمارے اندر شامل ہونے کی اجازت دی گئی، جس کی وجہ سے اویغور مسلمان اپنی اُس سر زمین پر اقلیت بن گئے جو ان کے آباؤ اجداد کی سرزمین تھی۔

چین کے ثقافتی انقلاب کے دوران اویغور مسلمان انقلابی رہنما ماؤزے تنگ کی سرخ فوج کا خاص ہدف تھے۔ چینی حکومت نے ہماری زبان، ثقافت، مذہب اور لباس پہننے کے انداز وغیرہ پر پابندیاں لگانی شروع کردی تھیں۔ جب وہ ہماری شناخت مٹانے میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے تاریخ کے آمروں سے سبق لیتے ہوئے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا، اس سے ہم دنیا کے بعض ان گروپوں میں شامل ہو گئے جنہیں بہت زیادہ ستایا گیا۔

آج 20 لاکھ تک اویغور مسلمان چین کے حراستی کیمپوں میں قید ہیں۔ بچوں تک کو حکومتی سرپرستی میں چلنے والے یتیم خانوں میں بھیجا جاتا ہے۔ ان کیمپوں میں لوگوں کو مبینہ طور پر نشہ دیا جاتا ہے۔ انہیں چینی صدر شی جن پنگ کی تقاریر سیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انہیں بھوکا رکھا جاتا ہے اور گلا سڑا کھانا دیا جاتا ہے جس کا مقصد انہیں صرف زندہ رکھنا ہے۔

اویغور مسلمانوں کو اپنے مذہب کو برا بھلا کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور انہیں ان کی شناخت پر شرم دلائی جاتی ہے۔ ان کیمپوں سے بچ نکلنے والوں نے جنسی ہراسانی اور تشدد کے ہولناک الزامات لگائے ہیں۔ ایغور لڑکیوں کو زبردستی شادی کی دھمکی دی جاتی ہے جبکہ فوجی ایغور مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہو کر ابھی تک کیمپوں سے دور رہنے والوں پر نظر رکھتے ہیں۔

چینی حکومت نے اس سلسلے میں ابھی تک کسی معاملے کی آزادانہ تحقیقات کی اجازت نہیں دی۔ چین نے صرف سرکاری حکام کی قیادت میں دوروں کا اہتمام کیا ہے۔ حال ہی میں چین نے اعلان کیا ہے کہ 90 فیصد اویغور مسلمانوں کو حراستی مراکز سے رہا کر دیا گیا ہے لیکن سنسان گلیاں اور گھروں پر پڑے تالے کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔

مسلم امہ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں سے لے کر یمن، فلسطین اور شام کے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔ انہیں اویغور مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے؟ صورت حال سے لاعلمی کا بہانہ بنا کر مسلمان ملک چین سے معاشی فوائد حاصل کر سکتے ہیں لیکن وہ دنیا بھر میں عزت سے محروم ہو رہے ہیں۔ اگر آج اسلامی ملک چین کی مذمت نہیں کرتے تو مستقبل میں وہ کس بات کے لیے کھڑے ہوں گے؟

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی