’جب سے ریل گاڑی چلی ہے، لوگ اپنی بیٹیوں کو دور دور بیاہنے لگے ہیں۔‘ رضا علی عابدی کی ریل کہانی میں موجود اس بابرکت سطر سے ہم انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ اپنی الیکشن سیریز ’ریل ریل میں‘ کا آغاز کر رہے ہیں۔
یہ تحریر پشاور میں لکھی جا رہی ہے۔ زندگی و سفر بخیر، یہاں سے ہم لوگ راول پنڈی، اس کے بعد لاہور پھر ملتان اور ریلو ریل کراچی تک جائیں گے۔
میرے ساتھ ویڈیو جرنلسٹ سہیل اختر ہوں گے اور ہم دونوں آنے والے انتخابات کے بارے میں مسافروں اور ان تمام سٹیشنوں کے مضافات میں آباد لوگوں کی رائے جانیں گے۔
ریل ریل میں کی پہلی قسط کا موضوع مہنگائی اور سکیورٹی کی مجموعی صورت حال ہے کہ جو میرا، آپ کا، ہم سب کا مسئلہ ہے اور شہر پشاور والے بھی کم و بیش باقی پاکستان جتنا ان مسائل کا شکار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پہلے زمانوں میں لوگ امید کیا کرتے تھے کہ انتخابات کے بعد حالات بدل جائیں گے، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا وغیرہ وغیرہ۔
اس سفر میں ہم یہ بھی جانیں گے کہ عوام اب تک ویسے ہی خوش گمان ہیں یا منظرنامہ بدل چکا ہے۔
اس تحریر کے ساتھ ویڈیو موجود ہے، اسے دیکھیے، شہر پشاور کی امیدیں جانیے، وہاں کا الیکشنی مزاج دیکھیں اور انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم کو اجازت دیں تاکہ عازم راول پنڈی ہونے کا سبب بنایا جائے۔
کل ملتے ہیں نئے شہر، نئی امیدوں اور نئے چہروں کے ساتھ، ریل ریل میں۔
یاد آیا، پہلی سطر جو میں نے لکھی ریل اور بیٹیوں کی شادی والی تو اس کا پس منظر شاید یہ ہو کہ میری والدہ پشاور سے بیاہ کر ملتان آئیں، میری شریکِ حیات کراچی سے بیاہ کر لاہور مقیم ہوئیں اور میری بہن ملتان سے امریکہ جا بسیں، تو وہ لائن شاید اس لیے بھی دل سے قریب ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔