پشاور کی جیم سٹون مارکیٹ: ’اب تو گلیوں میں پتھر بکتے ہیں‘

نمک منڈی میں واقع دہائیوں اس پرانی مارکیٹ میں یومیہ کروڑوں روپوں مالیت کے پتھروں کا کاروبار ہوتا ہے۔

نوجوان، بزرگ اور بیرون ملک سے آئے کچھ بروکرز کا رش لگا ہوا ہے اور دکان دار انہیں شو کیس میں رکھے قیمتی پھتر دکھا رہے ہیں۔

’یہ زمرد ہے جو افغانستان کے صوبے پنج شیر سے آیا ہے،‘ دکان پر موجود ایک نوجوان ملازم نے مجھے گاہک سمجھ کر بتایا۔

پشاور کی اس مارکیٹ کی ایک اور گلی میں چینی شہری بھی مختلف دکانوں میں پھر کر اپنے لیے پتھر تلاش کر رہے تھے۔

جیم سٹون کی یہ مارکیٹ دہائیوں پرانی ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپوں کا کاروبار ہوتا ہے۔

یہ مارکیٹ پشاور کی مشہور ’نمک منڈی‘ میں واقع ہے جہاں گاہک خریداری کے بعد تھکاوٹ اور بھوک مٹانے ’چرسی تکے‘ کا رخ کرتے ہیں۔

اس پرانی مارکیٹ کے قریب ایک نیا پلازہ بھی بنایا گیا ہے جس میں سینکڑوں جیم سٹون کی دکانیں ہیں لیکن زیادہ تر کاروبار انہی پرانے پلازوں میں کیا جاتا ہے، جس میں بعض کئی منزلہ بھی ہیں جہاں یہ کاروبار ’خفیہ‘ طور پر کیا جاتا ہے۔

ایک دکان دار نے بتایا: ’یہ ایک باعزت کاروبار ہے لیکن ہم کئی دہائیوں سے اسے پوشیدہ طور پر کر رہے ہیں لیکن یہ مذاق بن گیا ہے کہ اب یہ قیمتی پتھر یہاں کی گلیوں میں بھی فروخت ہو رہے ہیں۔‘

اس مارکیٹ میں کاروبار کرنے والوں کے مطابق یہ ایشیا میں قیمتی پتھروں کی بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے جہاں زیادہ تر پتھر افغانستان، سوات اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے آتے ہیں۔

دکان داروں کا کہنا ہے مطابق یہاں 60 سے 70 فیصد کاروبار افغانستان سے ہوتا ہے جہاں سے یہ پتھر پاکستان لائے جاتے ہیں اور پھریہاں سے دیگر ممالک کو درآمد کیے جاتے ہیں۔

تاہم بعض دکان داروں کے مطابق افغانستان میں طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد مال کی سپلائی میں کمی آئی جس سے کاروبار کے حالات خراب ہوئے ہیں۔

انہوں نے سپلائی میں کمی کی وجہ افغان طالبان کی جانب سے قیمتی پتھروں پر اضافی ٹیکس بتائی۔

اس مارکیٹ میں کام کرنے والے علی محمد خان نے بتایا کہ نمک منڈی کی اس مارکیٹ کا دنیا میں اپنا ایک نام ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں میں قیمتی پتھر پائے جاتے ہیں جس میں بعض کو ’صنعتی پتھر‘ کہا جاتا ہے۔

’ٹارمالین یا ترمری نامی پتھر افغانستان سے یہاں لایا جاتا ہے۔ بعض پتھر ایسے بھی آتے ہیں جن کے ایک گرام وزن کی قیمت 10 سے 15 لاکھ روپے ہوتی ہے جبکہ بعض ایک کلو بھی دو سے تین لاکھ روپے میں مل جاتے ہیں۔‘

افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کی صورت حال

علی محمد نے بتایا کہ افغان طالبان کے آنے سے پہلے حامد کرزئی، اشرف غنی اور دیگر حکومتوں میں قیمتی پتھروں کی سپلائی کبھی نہیں رکی، افغان طالبان کے آنے کے بعد بھی ان پتھروں کی سپلائی جاری ہے لیکن کچھ چیزیں ریگولیٹ کی گئی ہیں۔

’ریگولیشن کی پالیسی پہلے بھی موجود تھی لیکن طالبان سے پہلے رشوت کا بازار گرم تھا اور غیر قانونی طریقے سے افغانستان میں خریداری کی جاتی تھی لیکن طالبان نے اب اس پر پابندی عائد کی ہے۔‘

محمد الیاس بھی گذشتہ 10 سالوں سے اسی مارکیٹ میں کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جتنی معدنیات ہیں اتنی تو پاکستان میں بھی موجود نہیں اور اسی وجہ سے یہاں کی مارکیٹ کی طلب افغانستان سے پوری کی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مارکیٹ میں کاروبار پر جو تھوڑا بہت اثر پڑا ہے اس میں مہنگائی بھی ایک وجہ ہے جبکہ دوسری بڑی وجہ افغان طالبان کا قیمتی پتھروں پر ٹیکس ہے۔

’لاجسٹک کے خرچے میں اضافے سے بھی قیمتوں پر فرق پڑا ہے۔‘

الیاس نے بتایا: ’جو مال پہلے 20 سے 25 روپے پر ملتا تھا، اب ٹیکس میں اضافے کی وجہ سے وہی مال 500 سے 600 روپے تک چلا گیا ہے جبکہ افغان طالبان نے افغانستان کے اندر ہی ایک نیا طریقہ بنایا ہے اور اب وہیں سے مال بیرون ممالک سپلائی کیا جاتا ہے۔‘

منظور الہٰی پشاور میں خیبر چیمبر آف کامرس کے رکن اور صنعت کار ہیں جن کا قیمتی پتھروں کے حوالے سے کافی تجربہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نےبتایا کہ افغان طالبان کے آنے کے بعد پشاور کی قیمتی پتھروں کے مارکیٹ پر بہت فرق پڑا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ طالبان نے افغانستان میں اب ایک ایسا نظام بنایا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ بیرون ملک سرمایہ کار خود افغانستان جاکر وہاں سرمایہ کاری کریں اور وہیں سے مال اٹھا کر بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کر سکیں۔

منظور الہٰی نے بتایا: ’اب افغانستان میں افغان طالبان نے خود نیلامی شروع کی ہے۔ چین، سنگاپور، کوریا او دیگر ممالک سے اب لوگ وہاں جاتے ہیں اور حکومتی سرپرستی میں شفاف نیلامی کی جاتی ہے۔‘

منظور نے بتایا کہ افغانستان میں اب قیمتی پتھروں کی نمائش منعقد کی جاتی ہے اور غیر ملکی وہاں خود جا کر پتھر پسند کر کے خریدتے ہیں اور اسی وجہ سے پشاور مارکیٹ کو سپلائی میں 50 سے 60 فیصد کم آئی ہے۔

کیا سوات مارکیٹ پر کوئی فرق پڑا؟

پشاور کی مارکیٹ کو سوات سے زمرد کی سپلائی کی جاتی ہے جبکہ سوات میں بھی قیمتی پتھروں کی ایک مارکیٹ ہے جہاں تقریباً 100 دکانیں موجود ہیں۔

سوات میں زمرد کی کان دہائیوں سے موجود ہیں جن پر شورش کے دوران شدت پسندوں نے قبضہ کر لیا تھا لیکن امن بحال ہونے کے بعد منگورہ میں واقع ان کانوں کو حکومت نے لیز پر دے دیا اور اب یہاں سے باقاعدگی سے زمرد نکالا جاتا ہے۔

سوات کی انہیں کانوں سے زمرد پشاور کی مارکیٹ کو بھی سپلائی کیا جاتا ہے۔

سوات میں زمرد کی مارکیٹ کے یونین سیکریٹری اطلاعات معظم علی خان نے بتایا کہ پشاور کو مال سپلائی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ پنج شیر سے زمرد سپلائی میں مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

انہوں  نے بتایا کہ طورخم بارڈر پر افغانستان سے مال سپلائی میں مشکلات کا سامنا ہے تو اب افغان بیوپاری پشاور مارکیٹ سے سوات آکر  بھی مال خریدتے ہیں اور اس کو دیگر ممالک کو درامد کیا جاتا ہے۔

’سوات سے نکلنے والے زمرد کا رنگ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ کولمبیا، زیمبیا اور پنج شیر میں بھی زمرد موجود ہے لیکن سوات کے زمرد کی اپنی ایک منفرد پہچان ہے جسے بیرون ممالک سپلائی کیا جاتا ہے۔‘

ایک تحقیق کے مطابق سوات کی زمرد کی کان کی تاریخ ڈھائی ہزار سال پرانی ہے۔

’جیم اینڈ جیمالوجی‘ نامی جریدے میں شائع ایک تحقیق کے مطابق سوات کی زمرد کی کان 1958 میں دوبارہ دریافت ہوئی تھی۔

ابتدائی دنوں میں مینگورہ، گجر کلے، چارباغ اور ماخد مائنز کی کھدائی کی گئی تھی جبکہ شموزئی میں بھی زمرد کی کان موجود ہے۔

سوات کے زمرد کو پہلی مرتبہ عالمی مارکیٹ میں پزیرائی 1980 کی دہائی میں ایک نمائش کے دوران ملی تھی۔

تحقیق کے مطابق سوات کا زمرد انڈیا اور تھائی لینڈ تک سپلائی کیا جاتا ہے۔

معظم نے بتایا کہ سوات سے زیادہ تر زمرد تھائی لینڈ سپلائی کیا جاتا ہے اور وہاں سے یہ انڈیا پہنچتا ہے۔

پشاور کی مارکیٹ میں قیمتی پتھروں کی کٹائی تو کی جاتی ہے لیکن وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ علی محمد نے بتایا کہ اگر یہاں پر کٹنگ اور پالشنگ کا کام بھی شروع ہوجائے تو یہ مارکیٹ عالمی سطح پر ایک بہتر مارکیٹ بن سکتی ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان