چین اور انڈیا کی رسہ کشی اور خطے کے چھوٹے ملک

انڈیا کی ہندوتوا پالیسیوں کو خطے کے دوسرے ملک تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں جب کہ چین سرمایہ کاری کی مدد سے ان ملکوں کے دل جیت رہا ہے۔

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی 30 دسمبر 2023 کو ایودھیا میں ایک روڈ شو کے دوران (اے ایف پی)

جنوبی ایشیا سے متعلق مختلف تھنک ٹینکس کی تجزیاتی رپورٹوں میں یہ خیال تقویت پکڑ رہا ہے کہ انڈیا کے بیشتر پڑوسی ممالک جن پر انڈیا کا خاصا اثر و رسوخ پایا جاتا تھا، آج کل اپنی معیشت کی بہتری کے لیے چین کی جانب دیکھ رہے ہیں یا چین کے قریب آ چکے ہیں۔

چین نے پورے خطے میں ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کے تحت بیشتر ملکوں میں اپنے منصوبوں کا ایک وسیع تر جال بچھایا ہوا ہے۔

گو کہ مغربی ممالک چین کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے لیے انڈیا کو استعمال کرنا چاہتے تھے اور اسے جنوبی ایشیا میں بڑے بھائی کے طور پر اجاگر کرنے کی کوشش میں تھے مگر جنوبی ایشیا پر چین کا اتنا گہرا اثر نظر آرہا ہے کہ مغرب کی یہ خواہش دم توڑ رہی ہے، وہ چاہے مالدیپ ہو، برما ہو، سری لنکا یا بنگلہ دیش۔

چند ہفتے پہلے مالدیپ کے نئے منتخب صدر محمد معیزو نے نہ صرف اپنی انتخابی مہم میں ’انڈیا آؤٹ‘ کا نعرہ دیا تھا بلکہ صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد چین کا دورہ کر کے 10 سے زائد معاہدوں پر دستخط کرکے واپس بھی آئے۔ حال ہی میں انڈیا کو 15 مارچ سے پہلے 50 سے زائد فوجی اور ایک دو فوجی ہیلی کاپٹر ملک سے واپس بلانے کا الٹی میٹم بھی دے دیا۔

چین نے بغیر تامل کے مالدیپ کی سمندری حدود میں اپنی موجودگی کو بڑھانے اور دفاعی مدد کا وعدہ کیا جس پر انڈیا کے دفاعی ماہرین نے تشویش جتاتے ہوئے کہا کہ چین انڈیا کو زمینی اور سمندری سرحدوں کے اندر گھیرنے کی تاک میں ہے۔ مالدیپ پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل اگرچہ چھوٹا سا جزیرہ ہے مگر بحیرہ عرب میں اس کی خاصی اہمیت قرار دی جا رہی ہے۔

برما اور انڈیا کے تعلقات سطحی طور پر بہتر لگ رہے ہیں مگر دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت کشیدگی دیکھی گئی جب گذشتہ سال جنوری میں برما کی جانب سے انڈیا کی سرزمین پر کچھ بم گرائے گئے۔ میانمار کے فوجی حکمرانوں نے کہا تھا کہ اس نے اپنی حدود میں جمہوریت نواز گروہوں کو نشانہ بنایا ہے۔

اس سے قبل انڈیا نے میانمار سے ملنے والی شمال مشرقی ریاستوں کی اپنی سرحدوں کو مستحکم کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا تھا۔

انڈیا کے اندر گرنے والے بموں کی خبر کو میڈیا نے گول کر دیا۔

شمال مشرقی ریاستوں کے مختلف نسلی گروپوں اور میانمار کے بعض گروپوں میں کافی قربت ہے اور ان کا سرحد پار کرنا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا اب بنا دیا گیا ہے، جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سرکار نے روہنگیا مسلمانوں کے انڈیا میں داخلے پر بندشیں اور یہاں سے واپس جانے کی مہم کو تیز کر دیا ہے۔

البتہ مبصرین کے مطابق میزورم اور میانمار کی سرحد اسلحہ، منشیات اور شدت پسندوں کی سمگلنگ کے لیے آج بھی استمال کی جاتی ہے۔ میانمار کی فوجی حکومت کی مبینہ زیادتیوں پر چین نے اگر چپ سادھ رکھی ہے تو جمہوری کہلانے والے ملک انڈیا نے بھی خاموشی اختیار کی ہے۔

حالیہ برسوں میں میانمار اور چین میں دوستی کے نتیجے میں انڈیا تذبذب میں ہے مگر وہ اس کا اظہار نہیں کرتا۔

نیپال پر انڈیا کا خاصا اثر و رسوخ ہے وہ چاہے مذہب کی یگانگت کی وجہ سے ہے یا ثقافتی ہم آہنگی کے باعث، جسے وزیراعظم نریندر مودی نے 2022 کے دورہ نیپال کے دوران اس وقت مزید گہرا بنانے کی کوشش کی جب انہوں نے لمبنی میں مہاتما بدھ کی جائے پیدائش پر بدھ وہار بنانے کا سنگ بنیاد رکھا۔

2020 میں نیپال کی حکومت نے دونوں ملکوں کے درمیاں چار سو کلومیٹر کی کالاپانی سرحد کے بارے میں دوبارہ سوال اٹھایا، جب انڈیا نے لپولیکھ درے کے قریب 80 کلومیٹر سڑک کا افتتاح کیا تھا جو چین کی سرحد سے ریاست اتراکھنڈ کے دھرچولا کو ملاتی ہے۔ نیپال نے انڈیا کے سفارت کار کو بلا کر اس پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور آئینی ترامیم کے ذریعے اس سرحد پر اپنا حق جتانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔

بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق سڑک کے افتتاح کے پیچھے دراصل انڈیا کا ہاتھ تھا، جس کا مقصد نیپال کے انڈیا نواز وزیراعظم اولی کو ایک طرح سے لائف لائن فراہم کرنا تھا، جنہیں اندرونی طور پر سخت اپوزیشن کا سامنا تھا۔

انڈیا کے خلاف وزیراعظم اولی کی آواز اٹھانے سے اپوزیشن کا پارہ کم ہو گیا، جس نے فوراً آئینی ترامیم کرنے کا ساتھ دے دیا۔ اپوزیشن انڈیا مخالف تھی، اس وقت نیپال کی سڑکوں پر زبردست مظاہرے ہوئے جو انڈیا کی ایما پر ہو رہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بنگلہ دیش میں حالیہ متنازع انتخابات میں شیخ حسینہ کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کے فوراً بعد انڈیا پہلا ملک ہے جس نے انہیں مبارک باد دے کر دونوں ملکوں کے بیچ باہمی تعلقات کو مزید قریب لانے پر زور دیا۔ انڈیا کی پالیسی ’ایکٹ ایسٹ‘ کے تحت بنگلہ دیش ترجیحات میں پہلا ملک ہے، جسے چین کی توسیع پسندی اور اثر و رسوخ کو روکنے میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

دونوں ملکوں نے سرحد پر دریاؤں کے پانی کی تقسیم کاری پر دو سال پہلے ایک بڑا معاہدہ کیا، جس کو سنہ 96 کے بعد ہونے والے گنگا واٹر ٹریٹی کا دوسرا بڑا معاہدہ قرار دیا گیا تھا۔

انڈیا اور بنگلہ دیش کے بیچ چار ہزار سے زائد زمینی سرحد اور چون مشترکہ دریاؤں کے باعث دونوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہے۔

 شیخ حسینہ نے انڈیا، میانمار تھائی لینڈ کے درمیان 14 سو کلومیٹر کی شاہراہ کے تکونی پروجیکٹ میں شراکت داری کا اظہار کیا ہے جس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے، البتہ ٹیسٹا دریا دونوں ملکوں کے بیچ ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر ابھر رہا ہے، دوسرا مسئلہ روہنگیا تارکین طن کا ہے، جس پر شیخ حسینہ انسانی بنیادوں پر انڈیا کی ثالثی سے میانمار کے ساتھ مسئلے کا تدارک چاہتی ہیں۔

انڈیا میں ہندوتوا کی مسلمانوں کے خلاف نفرت اور ہجومی تشدد کے واقعات پر شیخ حسینہ نے کئی بار تشویش کا اظہار کیا ہے، اندرون ملک اس پر مظاہروں کے علاوہ کچھ اموات بھی ہوئی ہیں، جنہیں روکنے کے لیے حکمران جماعت کے انڈیا مخالف شدید بیانات سامنے آئے۔

ڈھاکہ میں انڈیا بنگلہ دیش امور کے ماہر رمیض چوہدری کہتے ہیں کہ ’امریکہ نے چند ہفتے قبل بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں اور متنازع انتخابات پر کئی سوالات اٹھائے ہیں، ملک میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری پر خفیہ طور پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ دو سال میں چین نے وہاں 12 شاہرائیں، 21 پل اور 27 بجلی کے منصوبے مکمل کیے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں اہم فریق کے طور پر بنگلہ دیش کا انڈیا پر انحصار کم ہوتا جا رہا ہے جس پر انڈیا سے زیادہ مغرب کو پریشانی لاحق ہو رہی ہے۔‘

سری لنکا پہلے ہی انڈیا کی گرفت سے کسی حد تک باہر آ چکا ہے جہاں چین نے ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا ہے، خاص طور پر سمندری حدود میں اس کی موجودگی اہم تصور کی جا رہی ہے۔

حال ہی میں چین اور سری لنکا کے درمیان ایک معاہدے کے تحت چین نے چار ارب ڈالر سے زائد قرضہ دینے کا وعدہ کیا جبکہ چین نے ہنبنتوتا پورٹ، کئی ہوائی اڈے اور شاہرائیں پہلے ہی تعمیر کی ہیں۔

سری لنکا کے صحافی انجنا سروردھن کہتے ہیں کہ ’انڈیا نے سری لنکا کے داخلی امور میں ہمیشہ مداخلت کی۔ وہ چاہے تامل باغیوں کی مدد کرنا تھا یا انتخابات میں انڈیا نوازوں کو جتوانا تھا مگر چین نے ہمارے ملک کی معیشت کو بحال کرنے میں کافی مدد کی اور اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے اجتناب کیا۔‘

مزے کی بات یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ازلی دشمن انڈیا اور پاکستان باہمی تعلقات کے حوالے سے خاموش ہیں اور ایک دوسرے کے لوگوں کو بچانے کے عمل پر سبقت لے رہے ہیں، ابھی حال ہی میں صومالی سرحد کے قریب انڈیا کی بحریہ نے ایک درجن سے زائد پاکستانیوں کو صومالی قزاقوں سے چھڑایا جبکہ اس سے قبل پاکستان نے روس یوکرین جنگ کے دوران انڈیا کے طلبہ کو وہاں سے نکالنے میں مدد کی تھی۔

لائن آف کنٹرول پر گذشتہ تین برسوں سے جاری جنگ بندی قائم ہے اور سرحدوں پر کشیدگی کم ہو گئی ہے۔

بعض مرتبہ بلوچستان میں بعض بلوچوں کی باغیانہ حرکتوں کی ذمہ داری انڈیا پر ڈالی جاتی ہے جو بقول پاکستان بلوچوں کی تحریک کو شہہ دے کر انہیں اسلحہ فراہم کر رہا ہے، جیسے 1971 سے قبل بنگالیوں کو اسلحہ سے لیس کیا جا رہا تھا۔

انڈیا کے حکمران بسا اوقات پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو ہتھیانے کا مطالبہ دہراتے ہیں لیکن بظاہر دونوں ملکوں نے اپنے اندرونی خلفشار پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ پھر چین اور پاکستان کے بیچ دوستی انڈیا کے لیے کوئی نیک شگن نہیں ہے، جس کو توڑنے کے لیے روس کا سہارا لیا گیا تھا مگر وہ چین کو ایسی صلاح دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

گذشتہ سال دہلی میں جی 20 کے اجلاس کے بعد جو تاثر قائم کیا جا رہا تھا کہ انڈیا کی کامیاب خارجہ پالیسی کی وجہ سے وہ دنیا بالخصوص جنوبی ایشیا کا محور بن گیا ہے۔

جب سے بعض سکھ رہنماؤں کو دوسرے ملکوں میں قتل کرنے کے الزامات عائد کیے گئے یا یوکرین پر انڈیا کی پوزیشن یا چین کے اثر و رسوخ کے خلاف اقدامات کرنے پر شہبات پیدا ہوئے ہیں اس کے بعد یہ تاثر صحیح ثابت نہیں ہو رہا ہے۔

انڈیا میں اپوزیشن کے بیشتر رہنما کہتے ہیں کہ لداخ میں چین کے دو ہزار کلو میٹر سے زائد رقبے پر قبضہ اور بھوٹان میں ڈوکلام کے قریب چین کی گرفت کے دو سال بعد بھی اب تک وزیراعظم مودی نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

بی جے پی کے مطابق انڈیا کی آزاد خارجہ پالیسی نہ صرف دنیا میں باعثِ وقار بن رہی ہے بلکہ اس کی معیشت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکی ہے۔ ملک میں پہلی بار بوئنگ یا ایپل اور دفاعی سازو سامان سمیت بڑی کمپنیاں کارخانے قائم کرتی جا رہی ہیں۔ مودی کی حکومت نے چند برسوں میں پانچ ٹریلین معیشت بنانے کا وعدہ کیا ہے جو اس وقت تین ٹریلین سے تجاوز کر چکی ہے۔

لیکن دوسری جانب بعض تھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی تجارت، تعمیراتی منصوبے اور شاہراہوں کو جوڑنے سے جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک چین کی جھولی میں خود بخود گرتے جا رہے ہیں۔

انڈیا کی جمہوریت پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور بی جے پی کے بعض لیڈروں کی جانب سے انڈونیشیا سے لے کر قندھار تک ہندو راشٹر بنانے کی خواہش کو یہ ملک تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

ان ملکوں میں چین کا اثر صرف سرمایہ کاری سے کم کیا جا سکتا ہے جو فی الحال انڈیا کے بس کی بات نہیں ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر