کیا انڈیا کی فلسطین پالیسی تبدیل ہو گئی ہے؟

مبصرین کے مطابق مودی نے اسرائیل کے حق میں ٹویٹ کر کے آنے والے انتخابات میں اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی 16 مئی 2017 کو نئی دہلی میں فلسطینی صدر محمود عباس (وسط) سے ملاقات کر رہے ہیں، جب کہ انڈین صدر پرنب مکھرجی بھی موجود ہیں (اے ایف پی) 

اسرائیل پر حماس کے حالیہ حملوں کے بعد جہاں ایک بار پھر دنیا میں شدید زلزلہ محسوس کیا جا رہا ہے وہیں انڈیا کی سفارتی پالیسی میں اچانک بدلاؤ نے بہت سے لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔

اس تبدیلی کا اعلان اس وقت ہوا جب وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے غیر جانبدار پالیسی کی روایت کو یکسر ختم کر دیا۔

سات اکتوبر کو حماس کے حملوں کے فوراً بعد امریکہ اور مغربی ملکوں نے اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور زور دے کر کہا کہ اسرائیل حماس کے خلاف اپنے کسی بھی طرح کے دفاعی ردعمل کا پورا حق رکھتا ہے۔

انڈیا نے فوراً مغربی ملکوں کی ہاں میں ہاں بھرتے ہوئے ہر مشکل گھڑی میں اسرائیل کے شانہ بشانہ رہنے کا اعادہ کیا۔

یہ تحریر آپ کالم نگار کی زبانی یہاں سن بھی سکتے ہیں:

قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس سے قبل روس یوکرین جنگ پر مغرب کے اصرار کے باوجود مودی نے غیر جانبدار پالیسی اپنائی تھی۔ اس بارے میں وزیر خارجہ جے شنکر نے ہمیشہ مغرب کو آڑے ہاتھوں لیا کہ وہ انڈیا پر اپنی پالیسی تھوپنے کی کوشش نہ کرے۔

حکومت کے بیان کے برعکس اگلے روز حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے مشرق وسطیٰ پر اپنی پالیسی بیان کو ظاہر کرتے ہوئے فلسطین کی آزاد مملکت کو خطے میں قیام امن کے لیے لازمی قرار دیا۔ یہی ماضی میں انڈیا کی سرکاری پالیسی رہی ہے۔

انڈین میڈیا اور عوامی حلقوں نے بالخصوص کٹر ہندوؤں نے مودی کی تعریف میں قصیدے لکھے، سوشل میڈیا پر اسرائیل کی حمایت میں مہم چلائی جب کہ بیشتر آبادی نے اسے ہندوتوا کا نیا ایجنڈا قرار دے کر کہا کہ بی جے پی نے خارجہ پالیسی کو بھی ملک کے بجائے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا جس کا ثمر وہ آنے والے انتخابات میں حاصل کرنا چاہتی ہے۔

انڈیا اور اسرائیل کے مابین سنہ 92 کے بعد قریبی سفارتی تعلقات قائم ہوئے ہیں، پھر روس کے بعد اسرائیل دفاعی سازوسامان فراہم کرنے والا انڈیا کا دوسرا ملک بنا، مگر انڈیا نے فلسطین کی جدوجہد کی ہمیشہ حمایت کی ہے جس کو فلسطینی رہنما محمود عباس کے 2018 میں دورہ انڈیا کے بعد مزید تقویت ملی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے انڈیا کا یہ عزم کئی بار دہرایا ہے کہ انڈیا اسرائیلی قبضے کی مخالفت اور فلسطین کی آزاد مملکت کی ہمیشہ حمایت کرتا رہے گا۔

دوسری جانب مودی کے اسرائیل کی حمایت میں ٹویٹ کے بعد اندرون ملک سیاسی سطح پر خاموشی برتی جا رہی ہے، البتہ لبرل اور سیکولر ہندو سمجھتے ہیں کہ اس پالیسی سے مستقبل میں بعض مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہونے کا احتمال ہے۔

مودی انڈیا کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے 2017 میں اسرائیل کا دورہ کر کے یہ عندیہ دیا تھا کہ وہ بن یامین نتن یاہو کی فلسطین سے متعلق پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔

مبصرین مودی کی فلسطین کی پالیسی میں تبدیلی کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔

مودی اور بن یامین نتن یاہو کے بیچ گہری دوستی بتائی جاتی ہے۔ پٹنہ کے صحافی اور تجزیہ نگار امت یادو کہتے ہیں کہ ’مسلموں کے بارے میں دونوں رہنماؤں کا ایک نظریہ ہے، دونوں سخت گیر پالیسی اپنانے کے ماہر بھی ہیں۔‘

یادو مزید کہتے ہیں کہ ’چند ہفتوں سے انڈیا کینیڈا سفارتی تنازع کافی بڑھ گیا ہے جس میں بعض رپورٹوں کے مطابق امریکہ نے ہی کینڈا کو سکھ رہنما نجر کی ہلاکت میں انڈیا کے کردار کی نشاندہی کی تھی۔ اندرونی طور پر ان ملکوں اور انڈیا کے مابین کافی تُو تُو میں میں ہوئی ہے، حالانکہ وزیر خارجہ جے شنکر نے امریکہ میں اس کو سلجھانے کی کافی کوشش کی۔

’حماس کے حملے کے بعد جب امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ نے اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا تو انڈیا نے بھی موقع غنیمت جان کر اسرائیل کی حمایت میں فوراً بیان دے دیا۔ انڈیا کو توقع ہے کہ شاید اس سے وہ سفارتی نقصان کی بھرپائی کرے گا، مگر کیا کینیڈا سمیت فائیو آئیز والے ممالک اس کے بدلے میں نجر کی ہلاکت پر ہونے والی تحقیات سے انڈیا کو بری کردیں گے اس کے لیے کچھ وقت انتظار کرنا ہو گا۔‘

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ملک کے اندر انتخابات کا ماحول ہے، پانچ ریاستوں میں نومبر میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں جنہیں اگلے سال کے پارلیمانی انتخابات کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے۔

بی جے پی کو اندرونی طور پر راہل گاندھی کی بڑھتی مقبولیت اور 24 جماعتوں کے اتحاد ’انڈیا‘ سے کافی پریشانی لاحق ہوئی ہے، ہندوتوا پالیسیوں کی بدولت پہلے دو انتخابات میں یقیناً کامیابی ملی ہے۔ اسرائیل کے کٹر رہنما اور وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کی فلسطین مخالف سخت گیر پالیسیوں کی حمایت کرنے سے مودی کو اندرون ملک کٹر ہندووں میں ضرور فائدہ ہو سکتا ہے، اس کے اثرات ابھی سے مین سٹریم میڈیا کی کوریج اور سوشل میڈیا پر ہندوؤں کے خیالات سے صاف ظاہر ہو رہا ہے۔

بقول سوشل میڈیا کارکن اجے ڈوگرا ’بی جی پی کے پٹارے میں تین طلاق، رام جنم بھومی اور آرٹیکل 370 کے جو انڈے رکھے گئے تھے وہ دو بار اقتدار حاصل کرنے میں کام آ گئے۔ اب یونیفارم سول کوڈ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے مگر اس کے لیے آئین میں تبدیلی لانی ہو گی۔ اب اگر اسرائیل کی سخت گیر پالسیوں کو الیکشن کا مدعا بنا کر ہندو ووٹ بٹورے جا سکتے ہیں تو بی جے پی اس سے گریز نہیں کرے گی جس کا توڑ کرنے کے لیے اپوزیشن کے اتحاد کو کسی معجزے کی توقع ہی کرنی ہو گی۔‘

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر