سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کی کینیڈا میں پر اسرار قتل کے بعد انڈیا اور کینیڈا کے بیچ سفارتی تنازع اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے اور مغربی ممالک اندرونی سطح پر دونوں ملکوں کے ساتھ مسئلے کو افہام و تفہیم سے سلجھانے پر زور دے رہے ہیں۔
مگر انڈین میڈیا کی جنونی کیفیت نے نہ صرف اس جلتی پر تیل ڈالا بلکہ پاکستان کو بھی تنازعے میں شامل کر کے اپنی حکومت پر کئی سوالات اُٹھائے ہیں۔
بعض سینیئر تبصرہ نگاروں نے یہاں تک کہہ دیا کہ کینیڈا انڈیا کا نیا پاکستان بن رہا ہے۔
یاد رہے انڈیا پاکستان کو ’دہشت گرد‘ کاروائیوں کا آماج گاہ قرار دیتا آرہا ہے، کینیڈا میں سکھوں کی موجودگی اور اُن کی آزادی کی مہم کے بعد اب کینیڈا کو ’دہشت گردی‘ کا اڈہ بتایا جا رہا ہے۔
یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
انڈین سکھوں کے ایک بڑے طبقے نے سنہ 80 میں علیحدہ وطن خالصتان کی خاطر مسلح تحریک شروع کی تھی جو چند برسوں کے خون ریز تصادم کے بعد دم توڑ بیٹھی۔
مسلح تحریک ختم ہونے کے کئی دہائی بعد تارکین وطن سکھوں نے اب عالمی سطح پر استصواب رائے کی ایک منظم مہم شروع کی ہے جس سے بظاہر انڈیا کو خاصی پریشانی لاحق ہو رہی ہے۔
کینیڈا میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ سکھ آباد ہیں جن میں سے بیشتر سنہ 80 میں گولڈن ٹیمپل پر انڈین سیکورٹی فورسز کے اوپریشن بلیو سٹار اور سنہ 84 میں سکھوں کے قتل عام کے وقت انڈیا سے یہاں آ بسے تھے۔
کینیڈا کی پارلیمان میں انہیں اچھی خاصی نمائندگی حاصل ہے۔
ریاست پنجاب کے اندر سے خالصتان کی اکا دکا آوازیں اب بھی آتی رہتی ہیں البتہ انڈیا سے باہر لاکھوں تارکین وطن سکھوں نے پر امن طور پر خالصتان کے قیام کے لیے ووٹنگ کے کئی راونڈ انجام دیے۔
برطانیہ، آسٹریلیا، امریکہ اور کینیڈا میں ووٹنگ میں سکھوں کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا۔
کشمیر کے تنازعے یا حالات پر اگرچہ انڈیا عالمی برادری کو خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن سکھوں کی تحریک عالمی مباحثوں کا اتنا بڑا موضوع بن جائے گی اس کی انڈیا کو شاید توقع نہیں تھی۔
کینیڈا میں آباد ستونت کور کہتی ہیں کہ ’سکھوں کی پُرامن تحریک کو بدنام کرنے کے لیے پاکستان کو اس میں دھکیلا جارہا ہے، سکھ کشمیریوں سے مختلف ہیں، انہیں علم ہے کہ عالمی سطح پر اپنی جنگ کیسے لڑنی ہے۔ میرے خیال میں سکھوں کو پاکستان کی ضرورت نہیں۔‘
میڈیا نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان کشمیریوں کی تحریک آزادی کی طرح سکھوں کے علیحدہ وطن خالصتان کی حمایت بھی کرتا ہے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے بریگیڈیئر (ر) عمران ملک کہتے ہیں کہ ’پاکستان انڈیا کی ان سازشوں سے پہلے ہی گزر چکا ہے۔ ہم ان کا توڑ کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں، کینیڈا اور مغربی ملکوں کو خود احساس ہو رہا ہے کہ انہوں نے جس سانپ کو پالا ہے وہ اب ڈسنے لگا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ظاہر ہے کہ مغربی ملکوں میں آزادیِ اظہار رائے کے حقوق کے تحت سکھوں کو ووٹنگ کرنے سے کسی نے نہیں روکا گو کہ انڈیا نے خفیہ طور پر ان حکومتوں پر انڈیا مخالف سرگرمیوں کو روکنے پر دباؤ بھی ڈالا جو بظاہر ابھی تک بار آور ثابت نہیں ہوا ہے۔
دلی میں سفارتی امور کے ماہر رومان سنگھ کے مطابق ’قومی سلامتی امور کے سربراہ اجیت ڈوول نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انڈیا کے مخالفین یا علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنے والوں اور اُن کے حامیوں کو گھر میں گھس کر ماریں گے۔
ان کے مطابق ’اس ڈاکٹرائن کو پاکستان میں شروع کیا گیا تھا جس نے اس کے دستاویزی ثبوت مغربی ملکوں کو پیش بھی کیے مگر کسی نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا۔ اب جب یہ ڈاکٹرائن مغرب کے دل پر چوٹ لگانے لگا ہے تو وہ خواب غفلت سے جاگ گئے اور اس وقت وہ کینیڈا کو دوسرا پاکستان بننے سے روکنے کے لیے سر توڑ کوششیں کرنے لگے ہیں۔
’فائیو آئیز والے اتحاد کے پاس خفیہ کاروائیوں کی تمام معلومات ہے بلکہ امریکیوں نے خود سکھ رہنماؤں کو سکیورٹی خدشات سے خبردار کردیا ہے۔ جمہوری ملک انڈیا کی خارجہ پالیسی پر اب شکوک پیدا ہوئے ہیں جب کینیڈا نے انڈیا پر موساد ٹائپ آپریشن کرنے کا الزام عائد کیا۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔