پاکستان کے زیادہ تر لوگ انہیں ’خوبصورت‘ کے نام سے جانتے ہیں، یہ کردار وہ گذشتہ 14 برسوں سے کرتی آرہی ہیں۔ تاہم رواں ماہ عائشہ عمر ایک اور فلم ’ٹکسالی گیٹ‘ کے ساتھ سینیما میں آ رہی ہیں جو لاہور کے ’ریڈ لائٹ ایریا‘ کی ایک کہانی ہے۔
عام طور پر اس طرح کی کہانیاں مشکل ہوتی ہیں اور عائشہ نے اسے چیلینج سمجھ کر ہی قبول کیا ہے۔
16 فروری کو ریلیز ہونے والی فلم ’ٹکسالی گیٹ‘ کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے ملاقات کی اور ان سے ان کے کردار کے بارے میں پوچھا جو بقول ان کے ’اب تک کا سب سے اچھوتا کردار‘ ہے۔
عائشہ عمر نے بتایا: ’یہ ایک مشکل کردار تھا اور مجھے یہ بتایا گیا کہ ایسے کردار بہت کم لوگ ہی ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کردار کی بہت سے پرتیں ہیں، جو اس کے ماضی سے جڑی ہیں۔ وہ کسی اور کے حق کے لیے لڑتی ہے اور انسانوں کے لیے آواز اٹھاتی ہے‘۔
عائشہ عمر کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ کردار مشکل تھا لیکن وہ اتنے عرصے سے بہت سے کردار کرتی آئی ہیں، اس لیے انہیں یہ زیادہ مشکل محسوس نہیں ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ٹکسالی گیٹ‘ لاہور کے مشہور علاقے ہیرا منڈی کی کہانی ہے مگر عائشہ کے مطابق یہ ایک مکمل کمرشل فلم بھی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’اس میں لاہور کی معروف والڈ سٹی، وہاں کی ثقافت، وہاں کے رہن سہن، عادات و اطوار، طرز معاشرت مکمل طور پر دکھائے گئے ہیں۔‘
مزید یہ کہ ’رضامندی‘ یا ’کونسینٹ‘ کے بارے میں اس فلم میں بہت کُھل کر بات کی گئی ہے۔ بقول عائشہ: ’پاکستان میں اس پر بات نہیں ہوتی، یہ کہانی بنیادی طور پر ایک ریپ کیس کے گرد گھومتی ہے، اور یہ ضروری ہے کہ ایسے مسائل پر بات کی جائے۔‘
عائشہ عمر نے بتایا کہ ان کے پاس 90 فیصد سے زیادہ کردار گلیمرس، بولڈ یا ایسی لڑکی کے کردار آتے ہیں جو باہر ملک سے آئی ہو، اسی لیے ہدایت کار ابوعلیحہ نے اس طرح کا کردار کرنے کی پیشکش کی جو عام ڈگر سے ہٹ کر ہو۔
’میں نے یہ کردار جانتے بوجھتے چنا، کیوں کہ ایک اداکار ہونے کی حیثیت سے مجھے مختلف نوعیت کا کام کرنا چاہیے اور جب عمومی کردار سے مختلف کردار سامنے آئے ہوں تو کیوں نہ کیے جائیں، اس لیے میں خوش ہوں۔‘
عائشہ نے بتایا کہ وہ گلیمرس کردار کرتے کرتے کچھ ’اکتاہٹ کا شکار‘ بھی ہو گئی ہیں۔
انہوں نے اپنی بات کی دلیل میں کہا: ’جیسے بلبلے کی ’خوبصورت‘ کا کردار 14 سال سے کر رہی ہوں، وہ بھی ایک گلیمر سے بھرپور کردار ہے، اس لیے میری خواہش ہے کہ ایسے کردار کروں جس میں لباس اور انداز سے زیادہ اداکاری جاندار ہو اور وہ کردار حقیقی زندگی سے بھی قریب تر ہوں۔‘
’ٹکسالی گیٹ‘ میں عائشہ عمر نے اپنی ایک خواہش بھی پوری کی کہ انہیں نیئر اعجاز کے ساتھ کام کرنا تھا اور انہوں نے اصرار کیا کہ وہ انہی کہ ساتھ کام کریں گی، اسی طرح 90 فیصد سے زیادہ وہی لوگ اس فلم کا حصہ بنے، جو پہلی ترجیح تھے۔
یاسر حسین کے ساتھ بطور ہیروئین کام کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’تین فلمیں ایک ساتھ کی ہیں مگر ان میں کردار مختلف تھے۔ تو ممکن ہے کہ آگے جا کر کچھ ایسا بھی ہو جائے۔‘
’ٹکسالی گیٹ‘ کی خاص بات کے حوالے سے عائشہ عمر کا کہنا تھا کہ ’اس فلم کی مکمل کاسٹ ہی بہت اچھی ہے، سب ہی اداکار بہترین ہیں اور انہوں نے بہترین کام بھی کیا ہے۔ ان میں افتخار ٹھاکر، نیئر اعجاز، علی خان، عفت عمر سمیت سب ہی اچھے اداکار ہیں۔ دوسرا اس فلم کو فلمایا بہت ہی اچھے انداز میں گیا ہے۔ یہ فلم ہیرا منڈی ہی میں فلمائی گئی ہے اس لیے حقیقت سے بہت ہی قریب ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جو میرے پرستار ہیں انہیں یہ کام بہت پسند آئے گا کیوں کہ ایسا کام پہلے کبھی میں نے نہیں کیا اور اداکار کی حیثیت سے ہم پر ہمیشہ تنقید ہوتی ہے کہ یہ کیوں پہنا، وہ کیوں کہا، اس لیے ہم کچھ محتاط ہوجاتے ہیں۔ کچھ دفاعی انداز بھی اختیار کر لیتے ہیں، اس لیے کھل کر کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے لیکن اس فلم میں چونکہ میں خود پروڈیوسر تھی اس لیے میں نے کھل کر کام کیا ہے۔‘
پاکستان میں عوام کے سینیما کم جانے کے بارے میں عائشہ عمر کا کہنا تھا: ’بالی وڈ کی فلمیں بند ہونے کی وجہ سے سینیما پر اثر ہوا لیکن فلم کے موضوعات کو بھی مضبوط اور مربوط ہونے کی ضرورت ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔