- پاکستان میں عام انتخابات 2024 کے بعد حکومت سازی اور دیگر سیاسی سرگرمیوں پر انڈپینڈنٹ اردو کی لائیو اپ ڈیٹس۔
- سپریم کورٹ نے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت 21 فروری تک ملتوی
- درخواست گزار بریگیڈئیر ریٹائرڈ علی خان کو نوٹس جاری
- کوئٹہ میں چار جماعتی اتحاد کا احتجاجی دھرنا جاری رکھنے کا فیصلہ
19 فروری دن 7 بجکر 05 منٹ
سرکاری ملازمین پر دباؤ ڈالنے والے عناصر کے لیے مثالی سزا یقینی بنائیں گے: وزیر اعظم
پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ عوام نے آٹھ فروری کو واضح طور پر حق رائے دہی کا اظہار کرتے ہوئے منقسم مینڈیٹ دیا۔
پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پرتشدد رویے کا ثابت شدہ ریکارڈ رکھنے والے کچھ عناصر اب مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جن میں بلیک میل کرنے میں سوشل میڈیا کا بطور ہتھیار استعمال اور سرکاری ملازمین پر دباؤ ڈالنا شامل ہے۔
’تاکہ وہ ریاست کے بجائے پرتشدد گینگ کے وفادار بن جائیں۔‘
وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کے مطابق: ’یہ اقدام آئین کے آرٹیکل پانچ سمیت دیگر آرٹیکلز اور ملکی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔‘
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’ریاست پاکستان آئینی فرائض کی انجام دہی میں سرکاری ملازمین کا دفاع کرے گی۔ ان پرتشدد ٹرولز کے خلاف کارروائی کرے گی اور مثالی سزا یقینی بنائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ریاست اور پاکستان کے عوام کی خدمت کرنے والے ان معزز سرکاری ملازمین کے ساتھ ہماری وابستگی کے بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
19 فروری دن 3 بجکر 46 منٹ
پی ٹی آئی اراکین سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکے ہیں: بیرسٹر گوہر
پاکستان تحریک انصاف نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتی مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے سنی اتحاد کونسل سے الحاق کا فیصلہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر علی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں ان کی جماعت کی حمایت سے کامیاب ہونے والے آزاد امیداروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور اس سلسلے میں بیانات حلفی جماعت کے حوالے کر دیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ بیانات حلفی جلد ہی قومی اسمبلی اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے سیکریٹیریٹس کے حوالے کر دیے جائیں گے۔
بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل سے پارلیمان میں اتحاد کے بعد پی ٹی آئی کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں مل سکیں گی۔
اس موقع پر ان کے ساتھ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کے امیدوار عمر ایوب خان، ترجمان رؤف حسن، سنی اتحاد کونسل کے حامد رضا اور ایم ڈبلیو ایم کے مولانا راجہ ناصر عباس بھی موجود تھے۔
19 فروری دن 3 بجکر 30 منٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ: تینوں حلقوں کے کامیابی کے نوٹیفکیشن معطل
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے اسلام آباد کے تینوں حلقوں کی انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی اور ان تینوں حلقوں میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کے کامیابی کے نوٹیفکیشن معطل کر دیے ہیں۔
نامہ نگار مونا خان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے جیتنے والے امیدواروں کے کامیابی کے نوٹیفکیشن چیلنج کیے تھے۔
پیر کو سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے این اے 47 سے ن لیگ کے امیدوار طارق فضل چوہدری، این اے 46 سے انجم عقیل اور این اے 48 سے خرم نواز کی کامیابی کے نوٹیفیکیشن معطل کر دیے۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شعیب شاہین، علی بخاری اور عامر مغل نے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن چیلنج کیے تھے۔
19 فروری دن 2 بجکر 50 منٹ
پاکستان میں آٹھ فرروی 2024 کے غیر فیصلہ کن انتخابات کے بعد ملک میں حکومت سازی کی غرض سے پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان پیر کی شام بات چیت کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے، جس میں بڑی کامیابی کی توقع کی جا رہی ہے۔
پاکستان کے سرکاری ریڈیو کے مطابق: ’پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رابطہ کمیٹیاں آج (پیر کو) اسلام آباد میں حکومت سازی پر مذاکرات کا پانچواں دور منعقد کریں گی۔‘
مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور پارٹی کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر اسحاق ڈار نے میڈیا کو بتایا کہ ہفتے تک جاری رہنے والی مشاورت میں دونوں فریقوں کے درمیان مختلف تجاویز پر حتمی نکات طے ہونا باقی ہیں۔
تاہم اسحاق ڈار نے پیر کی شام کو ہونے والے اجلاس میں دونوں جماعتوں کے درمیان ’اہم پیش رفت‘ کی توقع ظاہر کی ہے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اتوار کو مذاکرات کے چوتھے دور میں مخلوط حکومت کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل تیار کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی، جو سابق وزیر اعظم عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت کے دوران پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کا حصہ رہ چکی ہیں، آٹھ فروری کے ملک کے سیاسی تعطل کو ختم کرنے کی دعویدار ہیں۔
آٹھ فروری کے انتخابات میں پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل نہیں ہو پائی ہے، جس کی وجہ سے حکومت سازی کا واحد طریقہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد ہی بچ جاتا ہے۔
پاکستان کے 12 ویں پارلیمانی انتخابات میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 92 امیدوار آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے، جب کہ مسلم لیگ ن 75 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں سب سے بڑے سیاسی دھڑے کے طور ابھری۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی 54 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد رابطہ کمیٹیاں قائم کیں، جن کا مقصد مخلوط حکومت کے قیام کے سلسلے میں معاملات طے کرنا ہے۔
پیپلز پارٹی نے منقسم مینڈیٹ کے باعث مسلم لیگ ن کو وفاقی حکومت بنانے میں مدد کی پیشکش کی ہے، جب کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جماعت ابھی تک اتحادیوں کے بغیر حکومت بنانے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آ رہی ہے۔
ماضی میں روایتی سیاسی حریف رہنے والی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان بات چیت نئی انتظامیہ میں اہم عہدوں پر تقرریوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔
دونوں جماعتیں مستقبل کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کے بدلے کم نشستوں کے ساتھ کامیاب ہونے والی چھوٹی جماعتوں کو بھی ان (پی پی پی اور ایم ایل این) کے درمیان متوقع سیاسی اتحاد میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اتوار کے مذاکرات میں پاکستان مسلم لیگ ن کی نمائندگی سینیٹر اسحاق ڈار، سردار ایاز صادق، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ اور ملک محمد احمد خان سمیت اس کی سینیئر قیادت نے کی۔
پیپلز پارٹی کی نمائندگی سابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، قمر زمان کائرہ، سعید غنی، سردار بہادر خان سحر اور ندیم افضل چن نے کی۔
پیپلز پارٹی، جو سابق 2022 میں وزیر اعظم عمران کی حکومت کے خاتمے کے بعد شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم حکومت کا حصہ رہ چکی ہے، نے مسلم لیگ کی جانب سے ان (شہباز شریف) کی بطور وزیر اعظم نامزدگی کی بھی حمایت کی ہے۔
تاہم بلاول بھٹو زرداری کی جماعت نے ابھی تک اتحاد میں شامل ہونے کا عہد کیے بغیر مستقبل قریب میں بننے والی اقلیتی حکومت کی حمایت کا عندیہ دیا ہے۔
پاکستان میں اس وقت سیاسی طور پر غیر یقینی کی صورت حال برقرار ہے کیوں کہ عمران خان کی جماعت کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے پارلیمنٹ میں سب سے بڑا گروپ تشکیل دیا ہے۔
لیکن پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے آزاد ایم این ایز کو بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں ہے اور کسی جماعت سے منسلک ہوئے بغیر انہیں مخصوص نشستوں میں حصہ ملنا بھی ممکن نہیں ہے۔
اس وقت ملک میں متعدد سیاسی جماعتیں اور امیدواروں نے آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی سمیت کئی دوسروں نے نتائج کو عدالت میں بھی چیلنج کر رکھا ہے۔
19 فروری دن 1 بجکر 16 منٹ
عمران خان کا وکلا اور پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کی اجازت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’عدالتی احکامات کے باوجود وکلا اور پارٹی رہنماؤں کو عمران خان سے ملنے نہیں دیا جا رہا ہے لہذا عدالت ملاقات کی اجازت کا حکم جاری کرے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وکلا کو دستاویزات تو دور کی بات، ایک صفحہ تک اڈیالہ جیل کے اندر نہیں لے جانے دیا جا رہا ہے، عمران خان سے وکلا کی ملاقات کے دوران پرائیویسی بھی فراہم نہیں کی جاتی، اڈیالہ جیل انتظامیہ کی جانب سے وکلا کے دستاویزات کو قبضے میں لے لیا جاتا ہے اور 24 گھنٹے بعد واپس کیا جاتا ہے، عمران خان شہریار آفریدی، شاندانہ گلزار خان، اسد قیصر اور فیض الرحمن سے سیاسی مشاورت کے لیے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، لہذا عدالت اڈیالہ جیل انتظامیہ کو عمران خان سے وکلا اور پارٹی رہنماؤں کی علیحدگی میں ملاقات کا حق فراہم کرنے کے احکامات جاری کرے۔
درخواست میں سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد، سپرینٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو فریق بنایا گیا ہے۔
19 فروری صبح 10 بجکر 49 منٹ
کمشنر راولپنڈی کے بیان پر الیکشن کمیشن کی کمیٹی آج تحقیقات کا آغاز کر رہی ہے
عام انتخابات 2024 میں دھاندلی کرنے کا اعتراف کرنے والے سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کے الزامات پر الیکشن کمیشن کی خصوصی کمیٹی آج سے تحقیقات کا آغاز کر رہی ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق خصوصی کمیٹی تحقیقات کے دوران راولپنڈی، اٹک، جہلم، چکوال، تلہ گنگ اور مری کے علاقوں پر مشتمل راولپنڈی ڈویژن کے قومی اسمبلی کے 13 اور صوبائی اسمبلی کے 26 حلقوں کے ریٹرننگ افسران کے بیانات قلم بند کیے جائیں گے۔
اس سلسلے میں کمشنر راولپنڈی کے بیان کی متعلقہ حکام کے ذریعے ٹرانسکرپٹ حاصل کرنے کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
دو روز قبل سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے عام انتخابات میں بے ضابطگیوں کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔
راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کا کہنا تھا کہ ’میں نے انتخابات کے دوران راولپنڈی ڈویژن میں نا انصافی کی، ہم نے ہارے ہوئے امیدواروں کو 50، 50 ہزار کی لیڈ میں تبدیل کر دیا، راولپنڈی ڈویژن کے 13 ایم این ایز ہارے ہوئے تھے، انہیں 70، 70ہزار کی لیڈدلوائی اور ملک کے ساتھ کھلواڑکیا۔‘
لیاقت علی چٹھہ کا کہنا تھا ’راولپنڈی ڈویژن میں انتخابی دھاندلی کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرتا ہوں، مجھے راولپنڈی کے کچہری چوک میں سزائے موت دی جائے۔‘
19 فروری صبح 9 بجکر 57 منٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے عام انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت 21 فروری 2024 تک ملتوی کر دی ہے اور درخواست گزار بریگیڈئیر ریٹائرڈ علی خان کو وزارت دفاع کے ذریعے نوٹس جاری کیا ہے۔
اسلام آباد میں نامہ نگار مونا خان کے مطابق آٹھ فروری 2024 کے انتخابات کالعدم قرار دینے سے متعلق دائر درخواست مدعی نے واپس لینے کی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی۔
درخواست گزار کی جانب سے درخواست واپس لینے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے متعلقہ تھانے کو درخواست گزار کو تلاش کر کے پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا ہے کہ ’ایسے سپریم کورٹ کے ساتھ مزاح نہیں ہو سکتا، یہ مقدمہ ہم سنیں گے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ’کیا یہ صرف شہرت کے لیے درخواستیں دائر کرتے ہیں؟ ایسا تو نہیں ہو گا۔‘
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’ان صاحب کو پیش کریں جس طرح بھی ہو۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’درخواست گزار نے خود کو فوج کا سابق بریگیڈیئر ظاہر کیا تھا۔‘
ریٹائرڈ بریگیڈیئر علی خان کی جانب سے عام انتخابات کاالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ قبل از انتخابات دھاندلی اور نتائج میں تاخیر کے بعد جمہوری اصولوں کو خطرہ لاحق ہے لہذا سپریم کورٹ اپنی نگرانی میں 30 دن کے اندر نئے انتخابات کا حکم دے۔
چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ سوموار کو اس درخواست کی سماعت کرنے والا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس کے علاوہ اس بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل تھیں۔
دائر کی گئی اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی سے متعلق تمام سیاسی جماعتیں آواز اٹھا رہی ہیں، لہذا انہیں کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے بعد اعلی عدالت 30 روز میں اپنی زیرنگرانی عام انتخابات منعقد کرائے۔
19 فروری صبح 9 بجکر 31 منٹ
کوئٹہ میں چار جماعتی اتحاد کا احتجاجی دھرنا جاری رکھنے کا فیصلہ
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کی کوئٹہ میں رہائش گاہ پر اتوار کو بلوچستان کے چار جماعتی اتحاد کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کوئٹہ کے احتجاجی دھرنے کو جاری رکھا جائے گا۔
کوئٹہ سے صحافی اعظم الفت کے مطابق اجلاس میں تمام پارٹیوں کے کارکنوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ احتجاج جاری رکھنے اور اسے وسعت دینے کے لیے اپنا مثبت تعمیری کردار ادا کریں تا وقت کہ ملک کی جمہوری اقتدار میں رکاوٹ ڈالنے والے اپنے غیر آئینی کام سے دستبردار نہ ہوں۔
اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل، نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ عبدالخالق ہزارہ اور دیگر تمام پارٹیوں کے چار چار اراکین نے شرکت کی۔
اجلاس میں 2024 کے انتخابات کو یکسرمسترد کرتے ہوئے ان انتخابات کو پاکستان کی تاریخ کا ’سب سے زیادہ بدرنگ، بدنما اور دھاندلی زدہ‘ انتخابات قرار دیا۔
اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ان انتخابات کے نتائج کے خلاف احتجاج جاری رہے گا چوں کہ سارا ملک حالیہ انتخابات کو رد کرچکا ہے۔
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ احتجاج جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ دوسری جمہوری پارٹیوں سے جو اس احتجاج میں رابطے کرکے اپنی احتجاج کو وسعت دینی کی کوشش کی جائے گی۔
چار جماعتی اتحاد کے اجلاس میں کوارڈنیشن کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر اجلاس طلب کرکے آئندہ کے احتجاجی پروگرام کا لائحہ عمل پیش کرے۔
19 فروری صبح 8 بجکر 45 منٹ
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ آج آٹھ فروری 2024 کو پاکستان میں منعقدہ عام انتخابات کو کالعدم قرار دینے سے متعلق درخواست کی سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس کے علاوہ اس بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔
ایک شہری محمد علی کی جانب سے دائر کی گئی اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی سے متعلق تمام سیاسی جماعتیں آواز اٹھا رہی ہیں، لہذا انھیں کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست گزار نے اپنی درخواست میں سپریم کورٹ کے سامنے عالمی سطح پر انتخابات پر تنقید کا دکر کیا ہے اور ملک کے اندر بھی الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر کیے جانے والے سوالات شامل کیا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ انتخابات کو کالعدم قرار دے اور 30 روز میں سپریم کورٹ اپنی زیرنگرانی ملک میں عام انتخابات منعقد کرائے۔
19 فروری صبح 8 بجکر 12 منٹ
الیکشن ٹریبونلز انتخابی عذرداریوں کی آج سماعت کریں گی
الیکشن کمیشن آف پاکستان آج یعنی پیر سے ملک بھر میں قائم کی جانے والی الیکشن ٹریبونلز میں انتخابی عذرداریوں کی سماعت کرے گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر جاری کی جانی والی کاز لسٹ کے مطابق پنجاب، سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی انتخابی عذرداریوں کی سماعت کے لیے دو ٹریبونلز قائم کیے گئے ہیں۔
پہلی بینچ میں نثار احمد درانی اور بابر حسن بھروانہ ہوں گے جبکہ دوسری بینچ میں شاہ محمد جتوئی اور جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ خان شامل ہیں۔ دونوں بینچوں کے بالترتیب 49 اور 38 عذرداریاں ہیں۔
الیکشن ٹریبونل الیکشن ایکٹ کے سیکشن 140 کے تحت قائم کی گئی ہیں۔ ان ٹریبونل کے پاس سول کورٹ کے اختیارات ہوں گے۔
انتخابی دھاندلی کے الزامات، قانونی علاج اور ازالے میں کتنا وقت لگتا ہے؟
انتخابی عذرداری کامیاب امیدوار کے آفیشل گزٹ میں نام کے 45 دن کے اندر جمع کروائی جا سکے گی۔ انتخابی عذرداری الیکشن ایکٹ کے تحت 180 دن میں نمٹائی جائے گی۔
الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف 30 دن میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔
18 فروری رات 11 بجکر 9 منٹ
پی ٹی آئی سے کوئی اتحاد نہیں ہوا: مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ تحریک انصاف سے حکومت سازی کے لیے اتحاد ہوا نہ مستقبل قریب میں مشترکہ جدوجہد کا امکان نظر آتا ہے۔
پرائیویٹ ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’جرگہ‘ میں سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت اور پی ٹی آئی کے درمیان ’پہاڑ‘حائل ہے، جسے عبور کرنا آسان نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو سیٹیں ملنے اور انتخابی دھاندلی پر پر ان کی جماعت کے تحفظات موجود ہیں۔
انہوں نے کہا: ’سیاسی لوگ مذاکرات اور مسئلے کے حل سے انکار نہیں کرتے۔‘
جمعیت کے سربراہ سربراہ نے واضح کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کسی قسم کا اتحاد ہوا نہ فوری طور پر کوئی مشترکہ جدوجہد کے امکانات نظر آتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے وفد کا ان سے ملاقات سے متعلق مولونا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پشتون ثقافت میں مہمانوں کو واپس نہیں بھیجا جاتا ۔
’یہ پہلا موقع نہیں کہ پی ٹی آئی کے لوگ آئے۔ وہ پہلے بھی آ چکے ہیں۔ ہم نے انہیں ہمیشہ عزت دی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایک ’ثقافت‘ نے ترقی کی ہے جہاں دو فریقوں کے درمیان ملاقاتوں کو خود بخود ’اتحاد‘ کہا جاتا ہے۔
18 فروری دن 8 بجکر 55 منٹ
افسر دھمکیوں سے مت گھبرائیں: مریم نواز
پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کی نامزد امیدوار مریم نواز نے کہا ہے کہ ’بیوروکریسی کو قانون شکنی پر اکسانے والوں سے قانون کے مطابق نمٹیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بیوروکریسی کو دھمکیوں کا مطلب ریاستی نظام میں انتشار پیدا کرنا ہے جس کی کھلی چھوٹ تباہی کو دعوت دینا ہے۔‘
’افسران گھبرائیں نہ دھمکیوں سے مرعوب ہوں، قانون کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں۔‘
مریم نواز نے مزید کہا کہ ’افسران کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا گیا تو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، افسران کی سکیورٹی یقینی بنائیں گے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔