پنجاب کی 18 رکنی کابینہ میں ’نئے چہرے‘ شامل مگر ’طرز حکومت پرانا‘

پنجاب میں وزیر اعلیٰ مریم نواز کے حلف اٹھانے کے 10 روز بعد پہلے مرحلے میں 18 رکنی کابینہ نے حلف اٹھا لیا۔

پنجاب کی نئی کابینہ چھ مارچ، 2024 کو لاہور میں گورنر ہاؤس میں حلف اٹھا رہی ہے (گورنر ہاؤس)

پنجاب میں وزیر اعلیٰ مریم نواز کے حلف اٹھانے کے 10 روز بعد آج (بدھ کو) پہلے مرحلے میں کچھ نئے اور کچھ پرانے چہروں پر مبنی 18 رکنی کابینہ نے حلف اٹھا لیا۔

سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق کابینہ میں مریم اورنگزیب، سید محمد عاشق حسین شاہ، محمد کاظم پیر زادہ، رانا سکندر حیات، خواجہ عمران نذیر، خواجہ سلمان رفیق، ذیشان رفیق، بلال اکبر خان، صہیب احمد ملک، عظمیٰ زاہد بخاری، بلال یسیٰن، رمیش سنگھ اروڑہ، خلیل طاہر، فیصل ایوب، شافع حسین، سردار شیر علی گورچانی، سہیل شوکت بٹ اور مجتبیٰ شجاع الرحمان شامل ہیں۔

گذشتہ 10 روز میں وزیر اعلیٰ نے کئی اعلان کرنے کے علاوہ نگہبان پیکج شروع کیا لیکن قانونی طور پر ان اقدامات کی کابینہ سے منظوری لینا ضروری ہے۔ توقع ہے تشکیل کے بعد کابینہ کے پہلے اجلاس میں ان اعلانات کی منظوری لی جائے گی۔

کن وزرا کو کیا ذمہ داریاں ملیں؟

مریم اورنگزیب پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ سپیشل انیشی ایٹیو سی ایم سیکرٹریٹ، ماحولیات، جنگلات اور وائلڈ لائف کی وزیر ہوں گی۔ عظمیٰ بخاری وزیر اطلاعات جب کہ محکمہ داخلہ کا قلم دان مریم نواز خود اپنے پاس رکھیں گی۔

عاشق حسین  زراعت، کاظم پیر زادہ آب پاشی، عمران نذیر بنیادی صحت، مواصلات اور تعمیرات کے وزیر صہیب ملک اور خواجہ سلمان رفیق خصوصی صحت کے وزیر ہوں گے۔

خلیل طاہر سندھو انسانی حقوق کے وزیر جب کہ رمیش اروڑہ اقلیتی امور کے وزیر ہوں گے۔ اسی طرح محکمہ تعلیم کے وزیر رانا سکندر حیات اور مقامی حکومتوں کے وزیر ذیشان رفیق ہوں گے۔

معدنیات کا محکمہ وزیر شیر علی گورچانی، وزیر خوراک بلال یاسین، بلال اکبر ٹرانسپورٹ اور ق لیگ کے چوہدری شافع حسین وزیر صنعت وتجارت ہوں گے۔

صوبائی کابینہ میں مزید چار وزرا آئندہ چار روز میں حلف اٹھائیں گے جبکہ کابینہ میں ایس اے پی ایم اور مشیر بھی شامل کیے جائیں گے۔ 

نئی کابینہ کے لیے چیلنجز:

سینیئر صحافی تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق صوبائی کابینہ میں کئی سینیئر اراکین کے علاوہ بعض نئے چہرے شامل ہیں۔

’ہر حکومت اپنے حامیوں پر مشتمل کابینہ تشکیل دیتی ہے۔ اس بار مریم نواز کا بطور وزیر اعلیٰ پہلا تجربہ ہے لہٰذا سینیئر ارکان کو ان کی ٹیم میں زیادہ موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب کی نومنتخب حکومت پر صرف سیاسی دباؤ نہیں بلکہ انتظامی چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ ’پنجاب میں ن لیگ کی نئی حکومت کو سیاسی محاذ کے ساتھ اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے کارکردگی کا بھی بہترین مظاہرہ کرنا ہوگا۔‘

انہوں نے کہا: ’حالیہ انتخابات میں جس طرح ن لیگ کو پنجاب میں مخالفین کی جانب سے ٹف ٹائم ملا اس درجہ حرارت کو کارکردگی کی بنیاد پر ہی کم کیا جاسکتا ہے۔

’اس بات میں شک نہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی معاونت سے پنجاب میں حکومت بہتر کارکردگی دکھانے کی پوری کوشش کرے گی۔

’ماضی کو دیکھتے ہوئے عوامی مسائل حل کرنے میں پنجاب حکومت کے کامیاب ہونے کی بھی قوی امید ہے۔‘

تجزیہ کار اور سابق نگران وزیر اعلیٰ حسن عسکری نے کہا کہ ’پنجاب میں ن لیگ کی قیادت نے مریم نواز کو وزیر اعلیٰ بنایا اور کابینہ میں بھی اپنے اعتماد کے لوگ شامل کیے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ وہ عوام کے لیے کیا کریں گے۔ جتنے اعلانات ابھی تک کیے ہیں وہ پورے کرنا ہوں گے۔‘

ان کے خیال میں ن لیگ اپنی سیاسی ساکھ روایتی انداز میں بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

’اب وقت بدل چکا لوگ سیاسی نعروں کی بجائے کارکردگی کے منتظر ہیں۔ سب سے پہلے معاشی صورت حال بہتر کرنا اور گورننس میں بہتری لانا ہے۔

’اگرچہ نئے لوگ بھی شامل کیے گئے ہیں لیکن طرز حکمرانی وہی اپنائی جا رہی ہے کہ قریبی لوگ کابینہ کا حصہ ہیں اور خاص افسران کو محکموں کی ذمہ داریاں دی جا رہی ہیں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست