عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ترجمان نے جمعے کو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے لکھا گیا خط 28 فروری کو موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں پاکستان کے لیے فنڈ پروگرام سے متعلق بات کی گئی ہے۔
پی ٹی آئی آٹھ فروری کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے سراپا احتجاج ہے اور جیل میں قید پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر اس جماعت نے آئی ایم ایف کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ کسی بھی قسم کے بیل آؤٹ پیکج کے لیے مذاکرات میں ملک کے سیاسی استحکام کو مدنظر رکھا جائے۔
تحریک انصاف کے اس خط پر ردعمل کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے ایک سوال کے جواب میں آئی ایم ایف کی ترجمان ایسٹر پیریز نے ایک بیان میں کہا کہ فنڈ کا مینڈیٹ محدود ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس ایک بین الاقوامی ادارے کے طور پر، معاشی مسائل پر ایک محدود مینڈیٹ ہے اور وہ کسی بھی ملک میں ہونے والی سیاسی پیش رفت پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا۔
البتہ ترجمان کا کہنا تھا کہ ’معاشی استحکام اور ترقی کے لیے ادارہ جاتی ماحول کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، ہم تمام انتخابی تنازعات کے منصفانہ اور پر امن حل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کے روابط کا مقصد مالی استحکام میں بہتری، ادائیگیوں میں بنیادی توازن اور ادائیگی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مضبوط پالیسیوں کے نفاذ کی حمایت کرنا ہے۔
مزید کہا گیا کہ آئی ایم ایف کے تعاون کا مقصد سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقعوں کو فروغ دینے کی غرض سے نجی کاروبار کے لیے برابری کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ ’ان مقاصد کی بنیاد پر، ہم موجودہ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت دوسرے جائزے کو مکمل کرنے کے لیے نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں اور اگر حکومت درخواست کرے تو ایک نئے وسط مدتی اقتصادی پروگرام کی تشکیل کی حمایت کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ برس پاکستان کی مختصر مدت کی معاشی ضروریات پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف نے ایک سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے کی منظوری دی تھی، جس کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر قرض ملنا تھا۔ اس میں سے پاکستان کو اب تک 1.9 ارب ڈالر ملے چکے ہیں اور تیسری قسط کے اجرا سے قبل ایک جائزہ لیا جانا باقی ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ’ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی‘ کے تحت 2019 میں 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کا معاہدہ طے پایا تھا لیکن قرض کی آخری قسط کا اجرا نومبر 2022 سے تاخیر کا شکار تھا۔
اس دوران پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا اور عارضی طور پر معاشی درشواریوں کو دور کرنے اور معاشی اصلاحات لانے کے لیے پاکستان کو سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی صورت میں عارضی حل دستیاب ہوا۔
پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف نے منصب سنھبالنے کے بعد رواں ہفتے ایک اجلاس میں اپنی معاشی ٹیم کو آئی ایم ایف سے قرض کے پروگرام کی بحالی کے لیے تیاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ادھر جمعرات کو رات گئے ایک بریفنگ میں بات کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی ترجمان جولی کوزیک نے کہا تھا کہ پاکستانی حکام نے مالیاتی اہداف پر سختی سے عمل کرتے ہوئے اقتصادی استحکام کو برقرار رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نئی کابینہ کی تشکیل کے فوراً بعد سٹینڈ بائی انتظام کے دوسرے جائزے کے لیے ایک مشن کے انعقاد کے لیے تیار ہے۔ ہم میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے کے لیے نئی حکومت کے ساتھ پالیسیوں پر کام کرنے کے منتظر ہیں۔‘
ملک میں سیاسی عدم استحکام کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر کوزیک نے سیاسی صورت حال پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ان کی توجہ صرف موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پر ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔