آئی ایم ایف کو تحریک انصاف کا خط، پاکستان پر کیا ممکنہ اثرات ہوں گے؟

معاشی امور کے ماہرین نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے لکھے جانے والے اس خط پر اپنا ملا جلا ردعمل دیا ہے۔ کچھ ماہرین نے اسے پاکستانی معیشت کے لیے خطرہ جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس خط سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

10 فروری 2024 کی اس تصویر میں پاکستان تحریک انصاف کی حامی خواتین کراچی میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر انتخابی نتائج میں تاخیر کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے (اے ایف پی)

ایک ایسے وقت میں جب ملک میں نئی حکومت کی تشکیل کا عمل آئین کے مطابق مرحلہ وار جاری ہے اور معاشی صورت حال کو نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے، پاکستان تحریک انصاف نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو لکھے گئے ایک خط میں پاکستان کو قرض دینے سے قبل آٹھ فروری کے انتخابات کے آڈٹ کا مطالبہ کیا ہے۔

پی ٹی آئی نے آٹھ فروری کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے اس پر احتجاج کیا ہے۔ دوسری جانب اتحادی جماعتوں کے نامزد وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر آئی ایم ایف کو حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے لکھے گئے خط پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ’یہ سائفر کے بعد ایک اور ملک دشمنی کا ثبوت ہے۔‘

جمعرات کو قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے آمد کے موقعے پر شہباز شریف کا کہنا تھا: ’عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کو جو خط لکھا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ فنڈز نہ دیں اور انتخابات کا آڈٹ کروائیں، یہ میرے خیال میں سائفر کے بعد ایک اور ملک دشمنی کا ثبوت ہے۔‘

سیاسی اختلافات کے باوجود آئی ایم ایف کو خط لکھنا اس وقت ملک میں ایک موضوع بحث ہے کہ اس کی اہمیت کیا ہے اور اس کے اثرات کتنے گہرے ہو سکتے ہیں۔ ان سوالوں کا جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے معاشی ماہرین سے رابطہ کیا اور ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہرِ معیشت سید محمد علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’آئی ایم ایف ایک بین الاقوامی ادارہ ہے، جس سے کئی ممالک معیشت کی بہتری کے لیے وقتا فوقتاً رجوع کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کا آئی ایم ایف سے بہت پرانا تعلق ہے، یہ پہلا موقع ہے جب کوئی سیاسی جماعت پاکستان کی معیشت کے لیے ریلیف سے متعلق آئی ایم ایف کے فیصلوں اور پروگرام پر براہ راست اثر انداز ہونے کی کوشش کررہی ہے۔‘

بقول سید محمد علی: ’یہ نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی اور مفادات کے منافی ہے بلکہ یہ اقدام عالمی اداروں کے پاکستان پر اعتماد کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی مالیاتی ادارے، خصوصاً ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ممالک کے معاشی اشاریوں معاہدوں کو اہمیت دیتے ہیں، وہ ان ممالک سے توقع کرتے ہیں کہ ملک میں سیاسی ماحول ایسا ہو کہ معاشی معاہدے پورے کیے جا سکیں۔‘

سید محمد علی کا مزید کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف کا براہ راست تعلق معیشت سے ہے، سیاسی معاملات سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ریاست کے فیصلے اور معاملات ایسے ہوں جو آئی ایم ایف کے اعتماد کو تقویت دیتے ہوں۔ اس خط سے بین الاقوامی ادارے کے پاکستان پر اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھی ہے۔‘

اسی حوالے سے ماہرِ معیشت ڈاکٹر افضل اقدس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’آئی ایم ایف کو عمران خان کے خط سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ممالک کے سیاسی حالات سے دامن بچا کر کام کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف حکومت اور ریاست سے معاہدے کرتا ہے۔‘

ان کے مطابق: ’آئی ایم ایف جنرل ضیا اور جنرل مشرف سے بھی معاہدے کر چکا ہے اس لیے آئی ایم ایف کو خط لکھنا بے سود ہے، اس پر پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں آواز اٹھائے۔‘



ڈاکٹر افضل اقدس کا مزید کہنا ہے کہ ’عالمی مالیاتی فنڈ ملک کے سیاسی حالات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ آئی ایم ایف ملک کی معیشت کے ذرائع، ان میں اضافے کی وجوہات اور انٹرسٹ ریٹ کو دیکھتا ہے۔ نہیں لگتا کہ عمران خان کے خط کا پاکستان کی ڈیل پر کوئی اثر پڑے گا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’پی ٹی آئی کی جانب سے لکھے گئے خط کی کوئی زیادہ حیثیت نہیں ہے اور اس کا امکان بہت کم ہے کہ اس سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات، تعلقات یا ڈیل پر کوئی اثر پڑے۔‘

دوسری جانب ماہر معاشیات خرم شہزاد بھی سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کو لکھے گئے پی ٹی آئی کے خط کا کوئی ’خاص اثر‘ نہیں ہوگا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں خرم شہزاد نے کہا کہ ’عمران خان کا عالمی مالیاتی فنڈ کو خط لکھنا بے سود ہے۔ خط کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر کوئی بات نہیں کرے گا۔ یہ اس کا مینڈیٹ ہی نہیں۔‘

ان کے مطابق: ’اس بارے میں آئی ایم ایف کی جانب سے پہلے ہی ایک بیان سامنے آ چکا ہے جس میں اس نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان کی جو بھی نئی حکومت ہو گی ہم اس کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں۔‘

بقول خرم شہزاد: ’آئی ایم ایف نے ڈکٹیٹرشپ کے دور میں مصر کو بھی قرضے دیے ہیں۔ بنگلہ دیش بھی آئی ایم ایف پروگرام میں ہے، حالانکہ وہاں اپوزیشن جیل میں ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی ایسا تو نہیں ہوا کہ اپوزیشن نے آئی ایم ایف کو لکھنا شروع کر دیا۔ معاہدہ ریاست کے ساتھ ہوتا ہے، کسی جماعت کے ساتھ نہیں۔ تمام پارٹیوں کو یہ سمجھنا چاہیے،عمران خان کا یہ اقدام صرف سیاسی ایجنڈا ہے، جو انتہائی غلط ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سیاسی طور پر یہ پی ٹی آئی کی غلطی ہے کیونکہ اس سے ان کے بانی عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ اس خط سے کچھ نہیں ہوگا صرف جماعت اور ملک کی بدنامی ہو گی۔‘

گذشتہ دنوں امریکہ نے بھی پاکستان پر آئی ایم ایف کے ساتھ کام جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن  قرضوں اور بین الاقوامی مالیات کے ظالمانہ چکر سے آزاد ہونے کے لیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔

واشنگٹن میں 28 فروری کو معمول کی پریس بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی جانب سے حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے بارے میں آئی ایم ایف کو لکھے گئے خط کے حوالے سے سوال کیا، جس پر میتھیو ملر نے جواب دیا: ’آئی ایم ایف کے حوالے سے صرف اتنا کہوں گا کہ ہم قرضوں اور بین الاقوامی مالیات کے ظالمانہ چکر سے آزاد ہونے کے لیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کی حکومت کی طویل مدت صورت حال یا معیشت اس کے استحکام کے لیے اہم ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت کو فوری طور پر معاشی صورت حال کو ترجیح دینی چاہیے کیونکہ آئندہ کئی ماہ کی پالیسیاں پاکستانیوں کے لیے معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہوں گی۔‘

میتھیو ملر کے بقول: ’ہم پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ میکرو اکنامک اصلاحات کے لیے کام جاری رکھے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت