بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ڈائریکٹر کمیونیکیشنز جولی کوزیک نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی جانب سے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے ادارے کو ممکنہ خط کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کی منتظر ہیں لیکن وہ پاکستان کی سیاسی صورت حال پر تبصرہ نہیں کر سکتیں۔
یہ بیان جمعرات کو جولی کوزیک نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کے سوال کے جواب میں دیا۔
صحافی نے سوال کیا کہ مستقبل میں آئی ایم ایف کے پاکستان سے مالی تعاون کو ملک کے حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات سے مشروط کرنے کے عمران خان کے مطالبے پر وہ کیا کہتی ہیں؟ جس پر جولی کوزیک نے کہا: ’ہم نئی حکومت کے ساتھ پاکستان کے تمام شہریوں کے لیے معاشی استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانے کی پالیسیوں پر کام کرنے کے منتظر ہیں۔‘
صحافی کی جانب سے عمران خان کے ممکنہ خط کے بارے میں دوبارہ اصرار کرنے پر انہوں نے کہا: ’میں پاکستان میں جاری سیاسی پیش رفت پر تبصرہ نہیں کروں گی، لہذا میں نے جو کچھ کہا اس میں شامل کرنے کے لیے میرے پاس اور کچھ نہیں ہے۔‘
جولی کوزیک نے مزید کہا کہ ’11 جنوری کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے ساتھ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے پہلے جائزے کی منظوری دی جس کے تحت کل ادائیگیاں 1.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ سے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششوں کی حمایت کر رہے ہیں اور ہم یقیناً سب سے زیادہ کمزور طبقے کے تحفظ پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں۔‘
ان کے بقول: ’نگراں حکومت کے دور میں پاکستانی حکام نے معاشی استحکام برقرار رکھا۔ یہ مالیاتی اہداف پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی تحفظ کے ذریعے کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ افراطِ زر کو کنٹرول کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے سخت مانیٹری پالیسی کے موقف کو برقرار رکھنے کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔
عمران خان کا آئی ایم ایف سے مبینہ انتخابی دھاندلی کی تحقیق کا مطالبہ
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر علی ظفر نے جمعرات کو انکشاف کیا تھا کہ بانی چیئرمین عمران خان آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے جس میں اس بات پر زور دیا جائے گا کہ وہ اسلام آباد سے مالی امور پر بات چیت جاری رکھنے سے پہلے آٹھ فروری کے عام انتخابات کے آزادانہ آڈٹ کا مطالبہ کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راولپنڈی میں اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے علی ظفر نے کہا تھا: ’میں اہم معلومات دینا چاہتا ہوں جو عمران خان نے مجھے دی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کی طرف سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو ایک خط لکھا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف، یورپی یونین اور دیگر اداروں کا ایک چارٹر ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ملک میں کام کرنے یا قرض دینے کے لیے گڈ گورننس کی ضرورت ہے۔
بقول سینیٹر علی ظفر: ’گڈ گورننس کے لیے سب سے اہم شرط جمہوریت ہے جب کہ آٹھ فروری کے انتخابات کے دوران رات کی تاریکی میں عوام کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوئے تو کوئی بھی ادارہ ایسے ملک کو قرض دینے سے گریز کرے گا کیونکہ اس قرض سے لوگوں پر مزید بوجھ پڑے گا۔‘
سینیٹر علی ظفر کے مطابق: ’پی ٹی آئی انتخابی نتائج کا آڈٹ چاہتی ہے اور یہ شرط آئی ایم ایف کے سامنے رکھی جائے گی۔‘
پاکستان کی مالی مشکلات اور مزید چھ ارب ڈالر کی درخواست
پاکستان نے گذشتہ موسم گرما میں آئی ایم ایف کے قلیل مدتی بیل آؤٹ کی بدولت ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کو ٹال دیا تھا لیکن یہ پروگرام اپریل میں ختم ہو رہا ہے اور نئی حکومت کو معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے طویل مدتی انتظامات پر بات چیت کرنا ہوگی۔
دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے بلومبرگ نیوز نے جمعرات کو ایک پاکستانی اہلکار کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ پاکستان اس سال واجب الادا اربوں ڈالرز کا قرض ادا کرنے میں مدد کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے کم از کم چھ ارب ڈالر کا نیا قرض حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک آئی ایم ایف کے ساتھ ایک توسیعی فنڈ پر بات چیت کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس نے مزید کہا کہ عالمی ادارے کے ساتھ بات چیت مارچ یا اپریل میں شروع ہونے کی امید ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔