برطانوی وزیر اعظم کی ساس انڈین پارلیمان کی رکن نامزد

73 سالہ سدھا مورتی انڈیا کی معروف مصنفہ اور سماجی کارکن ہیں جبکہ ان کے ارب بتی شوہر کا ٹیک بزنس ہے۔

سدھا مورتی نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور انجینئر کیا (پی آئی بی انڈیا)

برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کی ساس اور انڈیا کی معروف مصنفہ اور سماجی کارکن سدھا مورتی کو راجیہ سبھا (ایوان بالا) کے لیے نامزد کر دیا گیا۔

73  سالہ سدھا کو انڈین صدر دروپدی مرمو نے نامزد کیا جس کا اعلان وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعے کو ایکس پر ایک پوسٹ کے ذریعے کیا۔

نریندر مودی نے پوسٹ میں کہا: ’سماجی کام، انسان دوستی اور تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں سدھا جی کی شراکت وسیع اور متاثر کن رہی ہے۔ ان کے کامیاب پارلیمانی دور کی خواہش کرتے ہیں۔‘

سدھا کی نامزدگی کا اعلان خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر سامنے آیا جب انڈین وزیر اعظم نے ایوان بالا میں ان کی موجودگی کو انڈیا میں خواتین کو بااختیار بنانے کا ’ایک طاقت ور عہد‘ قرار دیا۔

انڈیا میں صدر پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے لیے سماجی کاموں، فنون، ادب اور سائنس جیسے شعبوں میں خدمات انجام دینے 12 اراکین کو نامزد کرتے ہیں۔

ماہر تعلیم اور سماجی کارکن سدھا کو، جن کے ارب پتی شوہر نارائن مورتی ایک بڑی ٹیک کمپنی انفوسس کے مالک ہیں، گذشتہ سال ان کی سماجی خدمات کے لیے انڈیا کے تیسرے سب سے بڑے شہری ایوارڈ پدم بھوشن سے نوازا گیا تھا۔

انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور انجینیئر کیا۔ وہ انفوسس فاؤنڈیشن کی سابق چیئرپرسن بھی ہیں۔ رشی سونک نے ان کی بیٹی اکشتا مورتی سے شادی کی۔

سدھا نے کہا کہ وہ اس اعلان سے حیران ہیں اور خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر یہ اعزاز ملنے پر بہت پرجوش ہیں۔

انہوں نے انگریزی اخبار دا ہندو کو بتایا: ’یہ اعلان بالکل غیر متوقع تھا۔ اس لیے میں نے ابھی تک اپنے پارلیمانی دور کے لیے منصوبے نہیں بنائے لیکن میں دیکھوں گی کہ میں اس پلیٹ فارم کو انڈیا کے لوگوں کی بھلائی کے لیے کیسے استعمال کر سکتی ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کئی بار انڈین ٹی وی پروگراموں میں شرکت کر چکی ہیں۔

پچھلے سال، دی کپل شرما شو میں بطور مہمان انہوں نے برطانیہ کے ایک امیگریشن افسر کے ساتھ اپنی اس تکرار کو یاد کیا جس نے یہ ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ برطانیہ میں ان کا رہائشی پتہ 10 ڈاؤننگ سٹریٹ (برطانوی وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ) ہے۔

شو میں شرکت سے چند دن پہلے انہوں نے ایک تنازعے کو اس وقت جنم دیا جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا جنوبی انڈیا کی ریاست کرناٹک میں انتخابات کے دوران فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا ملی؟

ریاست میں انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ کشیدگی دیکھی گئی تھی جس میں ہندو قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں نے حجاب پہننے والی لڑکیوں کے خلاف احتجاج کیا۔

ان کا یہ تبصرہ کہ وہ ’ان چیزوں کے بارے میں فکرمند نہیں اور یہ کہ وہ اس کی سیاسی بصیرت نہیں رکھتیں‘، سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں بہت سے لوگوں نے ان کی جانب سے ملک میں اقلیتوں کو متاثر کرنے والے مسائل کے بارے میں فکر نہ کرنے پر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا