پی ایس ایل 9: کون ہیرو، کون زیرو؟

پی ایس ایل 9 کا میلہ تو بد انتظامی کے ساتھ اختتام کو پہنچ گیا لیکن کیا اس کے ہیروز جنہوں نے لیگ کو اپنی کارکردگی سے مقبولیت بخشی، قومی ٹیم تک پہنچ سکیں گے؟

اسلام آباد یونائیٹڈ کے کھلاڑی 18 مارچ 2024 کو کراچی میں پی ایس ایل کے فائنل میں (اے ایف پی)

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا نواں ایڈیشن اسلام آباد یونائیٹڈ کی جانب سے ٹرافی اٹھانے کے بعد اختتام پذیر ہو گیا۔

پی ایس ایل کی مقبولیت اور پاکستان کرکٹ پر اس کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ قومی ٹیم کے انتخاب کے لیے پہلی نظر پی ایس ایل کے ٹاپ پرفارمرز پر ہی جاتی ہے جن کی اچھی کارکردگی کو سیلیکٹرز نظر انداز نہیں کر پاتے اور انہیں قومی ٹیم میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہی ٹاپ پرفارمر کھلاڑی جب بین الاقوامی مقابلوں میں جاتے ہیں تو اتنے کارگر ثابت نہیں ہوتے۔   

پی ایس ایل کے ناقدین چاہے جتنا اس کے معیار پر تنقید کرلیں لیکن اس کی مقبولیت نے مداحوں کے دل موہ لیے ہیں۔ پیر کی شام جب پی ایس ایل کے نویں ایڈیشن کے اختتام آتش بازی سے کیا جا رہا تھا تو اسلام آباد یونائیٹڈ کے کھلاڑیوں کو باقی پانچ ٹیموں کے کھلاڑی حسرت سے دیکھ رہے ہوں گے۔ اسلام آباد نے جس مستعدی سے زیر سے زبر کا سفر طے کیا اور اس مرحلے سے خود کو چیمپیئن ثابت کیا جب ان کے آگے بڑھنے کے سارے راستے مسدود ہو چکے تھے۔ 

اس ایڈیشن میں کون سے کھلاڑی ہیرو بن کر ابھرے؟

اگر نویں پی ایس ایل کا بغور جائزہ لیں تو کچھ کھلاڑیوں کی کارکردگی بہت عمدہ نظر آتی ہے۔ مندرجہ ذیل میں ان کھلاڑیوں کی کارکردگی پر ایک ںظر ڈالی گئی ہے۔

عثمان خان: 10 میں سے 8

میچ سات، رنز 430، اوسط 107.5، سٹرائیک ریٹ 164.12 ، سنچریاں دو ، نصف سنچریاں دو

اس سیزن متحدہ عرب امارات میں کرکٹ کھیلنے والے پاکستانی نژاد عثمان خان سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ سات میچوں میں 430 رنز بنانے والے عثمان کراچی میں پیدا ہوئے لیکن ان کا آبائی تعلق پنجاب سے ہے۔ اوائل عمری میں ہی وہ دبئی چلے گئے اور وہاں کی قومی ٹیم تک پہنچ گئے۔ عثمان وہ پہلے کھلاڑی ہیں جو پی ایس ایل کے ایک ایڈیشن میں دو سنچریاں بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ اگر سارے میچ کھیلتے تو شاید بابر اعظم سے بھی آگے ہوتے۔ وہ بلاشبہ لیگ کے سب سے بہترین بلے باز تھے اور اختتام تک رنز بنانے کی اپنی صلاحیت کا کھل کر مظاہرہ کرتے رہے۔

 انہیں لیگ کے بہترین بلے باز کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

صائم ایوب: 10 میں سے 8

میچ 11، رنز 345 ،اوسط 31.36 ، سٹرائیک ریٹ 157 ، نصف سنچریاں دو

صائم اپنے ’نو لُک شاٹ‘ کے باعث پہچانے جاتے ہیں اور اس سیزن وہ پشاور زلمی کی طرف سے آل راؤنڈر کے نئے روپ  میں نظر آئے۔ انہوں نے اپنی آف سپن بولنگ سے اننگز کا آغاز کیا اور اہم مواقعوں پر قیمتی وکٹیں بھی حاصل کیں۔ سیزن میں 345 رنز اور آٹھ وکٹیں عمدہ کارکردگی کہی جاسکتی ہے جس کے بعد قومی ٹیم میں بھی ان کی شمولیت یقینی نظر آتی ہے۔

عماد وسیم: 10 میں سے 8

بولنگ: 12 وکٹ 12 میچ میں پانچ وکٹ ایک دفعہ

میچز 12، رنز 126،  سٹرائیک ریٹ 128 نصف سنچری ایک

وکٹیں 12

پی سی بی سے اختلافات ہوجانے کے باعث وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لینے والے عماد وسیم نے رواں سیزن اسلام آباد یونائیٹڈ کی طرف سے کھیلا اور پلے آف میچوں میں اپنی شاندار کارکردگی کے باعث اپنی فرنچائز کے فتح گر بن گئے۔

آخری تینوں میچوں میں اپنی زبردست کارکردگی پر مین آف دا میچ قرار پائے۔ فائنل میں عماد وسیم کی پانچ وکٹیں ہی فتح کی بنیاد بنیں۔ عماد وسیم کی بولنگ نے اسلام آباد یونائیٹد کو فیصلہ کن میچوں میں فتح یاب کیا۔ فائنل میچ کے بعد جب ان سے ریٹائرمنٹ واپس لینے کے متعلق سوال کیا گیا تو وہ اس کے لیے تیار بھی نظر آئے۔

اسامہ میر اور محمد علی: 10 میں 7

ملتان سلطانز کے دونوں بولرز اسامہ میر اور محمد علی نے تمام میچوں میں عمدہ بولنگ کی۔ اسامہ 24 وکٹیں لے کر پہلے اور محمد علی 19 وکٹ کے ساتھ دوسرے بہترین بولر رہے۔ اسامہ میر کو تو فضل محمود کیپ دی گئی تاہم محمد علی قومی ٹیم کے امیدوار بن گئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیلیکٹرز کیا فیصلہ کرتے ہیں لیکن محمد علی درمیانے اوورز میں بہت مفید ثابت ہوسکتے ہیں ۔

نسیم شاہ: 10 میں سے 7

فاسٹ بولر نسیم شاہ انجری کے بعد کھیل رہے تھے اس لیے ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں تھیں، مگر انہوں نے اپنی تیز رفتار بولنگ سے متاثر کرنے میں کامیاب رہے۔ نسیم شاہ نے 15 وکٹیں لے کر اسلام آباد یونائیٹڈ کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تو وہیں انہوں نے بیٹنگ میں بھی اپنے جوہر دکھائے۔ فائنل میں اس وقت ان کے دو چھکوں اور چوکوں نے فتح کا راستہ ہموار کیا جب سارے اچھے بلے باز پویلین لوٹ چکے تھے۔

مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑی

پی ایس ایل میں چند ایسے بڑے نام بھی تھے جن پر کچھ ٹیمیں بہت زیادہ انحصار کر رہی تھیں لیکن انہوں نے اپنی ٹیموں اور مداحوں دونوں کو ہی مایوس کیا۔

شان مسعود: 10 میں سے 3

میچ 10 ، رنز 158

قومی ٹیم کے کپتان شان مسعود کو کراچی کنگز نے بھی اپنا کپتان مقرر کیا تو سب کو شان سے بہت زیادہ امیدیں تھیں لیکن وہ 10 میچوں میں صرف 158 رنز ہی بنا سکے۔ ان کی غیر معیاری کارکردگی نے کنگز کے مداحوں کو بہت مایوس کیا۔

فہیم اشرف: 10 میں سے 3

میچ 12، رنز 100، وکٹیں چھ

مایوس کرنے والے کھلاڑیوں میں ایک بڑا نام ٹیسٹ کرکٹر فہیم اشرف کا بھی ہے۔ ان کی بیٹنگ تو کسی بھی وقت کام نہ آ سکی لیکن بولنگ بھی غیر موثر رہی۔

فخر زمان: 10 میں سے 3

میچ آٹھ، رنز 157

قومی ٹیم کے اہم رکن فخر زمان نے لاہور قلندرزکے لیے کوئی ایسی اننگز نہیں کھیلی جس پر قلندرز فخر کر سکیں۔ وہ آخری دو میچوں میں ان فٹ ہوجانے کے باعث کھیل نہ سکے لیکن آٹھ میچوں میں 157 رنز کی کارکردگی ٹیم پر ایک بوجھ ہی رہی  اور اب ان کا قومی ٹیم میں جگہ برقرار رکھنا ناممکن نظر آتا ہے۔ 

محمد نواز: 10 میں سے 1

میچ آٹھ، رنز 88، بولنگ وکٹیں دو

کراچی کنگز نے حیرت انگیز طور پر محمد نواز کو پلاٹینم کیٹیگری میں خریدا تھا۔ حالانکہ کافی عرصہ سے وہ غیر معیاری کھیل پیش کررہے ہیں اور اس سیزن میں وہ مکمل طور پر فلاپ ہو گئے۔

خوشدل شاہ: 10 میں سے 2

میچ 10، رنز 68

ملتان سلطانز کے خوشدل شاہ نے بھی اس سیزن بہت مایوس کیا۔ ان کی بیٹنگ کچھ خاص نہیں رہی اور بولنگ ان کو زیادہ دی نہیں گئی جبکہ فیلڈنگ میں بھی ان کی پرفامنس خراب ہی رہی۔

ابھرتے ہوئے ستارے

پی ایس ایل 9 میں کچھ ایسے بھی نئے کھلاڑی سامنے آئے جنہوں نے اپنی انفرادی کارکردگی سے متاثر کیا۔ 

ان میں سرفہرست کوئٹہ کے عثمان طارق تھے۔ ان کی فنگر سپن نے بلے بازوں کو پریشان کیا۔  اگرچہ ان کا ایکشن رپورٹ ہوا تاہم وہ مستقبل میں قومی ٹیم میں جگہ بناسکتے ہیں۔ 

کوئٹہ کے ہی ایک اور کھلاڑی خواجہ نافع کی ایک اننگز نے تہلکہ مچایا دیا تھا۔ اگرچہ وہ بعد کے میچوں میں نہ چل سکے لیکن وہ بھی مستقبل کے سپر سٹار نظر آتے ہیں۔

جہاں لاہور قلندرز کے جہانداد خان کی بیٹنگ اور بولنگ نے متاثر کیا اسی طرح کوئٹہ کے سعود شکیل بھی ایک مختلف روپ میں بلے بازی کرتے نظر آئے۔ وہ صائم ایوب سے شاید ’نو لُک شاٹ‘ کھلنا سیکھ چکے ہیں اور کامیابی سے اس تکنیک سے کھیلتے رہے۔ 

پشاور کے عارف یعقوب نے بھی کچھ میچوں میں عمدہ بولنگ کی اور ایک اوور میں چار وکٹوں کا ریکارڈ بھی بنا ڈالا۔

پشاور ہی کے مہران ممتاز بھی عمدہ بولنگ کرتے رہے ان کی قومی ٹیم میں شمولیت بھی یقینی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مایوس کن لمحات

اگر پی ایس ایل کے مایوس کن لمحات کی بات کی جائے تو لاہور قلندرز کا ایونٹ سے یوں باہر ہونا سر فہرست ہے۔ غلط ڈرافٹنگ اور کپتان شاہین شاہ آفریدی پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کی وجہ سے ٹیم کا کمبینیشن نہ بن سکا۔ فان دا ڈاسن نے اگرچہ کئی عمدہ اننگز کھیل کر ایک سنچری بھی بنائی لیکن دوسرے بلے باز ان کا زیادہ ساتھ نہ دے سکے۔

 بولنگ میں اچھے سپنرز کی کمی شدت سے محسوس ہوئی،  حارث رؤف کے زخمی ہو جانے سے لاہور بے بس نظر آیا۔

پی ایس ایل کے نویں ایڈیشن میں پشاور زلمی کا فائنل کی دوڑ سے باہر ہونا مایوس کن تھا جب وہ ایونٹ میں اچھے آغاز کے باوجود فنش نہ کرسکے۔ پشاور نے پاور پلے کا خوب استعمال کیا لیکن مڈل آرڈر نامکمل ہونے کے باعث بڑا سکور کرنے میں ناکام رہے۔

خراب فیلڈنگ کا ایڈیشن

اگر نویں ایڈیشن کو خراب ترین فیلڈنگ کا سیزن کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔  اگرچہ سیزن میں کچھ بہت عمدہ کیچ پکڑے گئے لیکن اکثر مواقع پر فیلڈنگ نہایت ہی خراب رہی۔  ملتان سلطانز کے خوشدل شاہ نے ایک ہی میچ میں چار کیچ چھوڑ کر نیا ریکارڈ قائم کیا۔ سیزن میں مجموعی طور پر 70 سے زائد کیچ گرائے گئے جو پکڑے جاسکتے تھے۔

ملتان سلطانز اور کراچی کنگز کی فیلڈنگ بہت خراب رہی۔ تاہم اسلام آباد یونائیٹڈ کی فیلڈنگ نے بہت متاثر کیا۔ اعظم خان نے مستعدی سے وکٹ کیپنگ کی۔ اسلام آباد کی جیت میں فیلڈنگ بھی ایک لازمی عنصر رہا۔

کون سے کھلاڑیوں کا یہ آخری سیزن ہوسکتا ہے؟

سرفہرست سرفراز احمد ہیں جنہیں ان کی ٹیم نے کپتانی سے ہٹانے کے بعد میچز سے بھی دور رکھا حالانکہ ان کی جگہ انگلینڈ کے لاری ایونس کھیلے تاہم وہ بھی کچھ خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے۔

سہیل خان، انورعلی، کرس جارڈن، کیرن پولارڈ سمیت بہت سے کھلاڑی آئندہ سیزن میں شاید اب نظر نہ آئیں۔

شائقین کی عدم دلچسپی

پی ایس ایل کے رواں سیزن کو وہ مقبولیت حاصل نہ رہی جو ماضی میں تھی۔ ابتدا میں ملتان، راولپنڈی اور لاہور میں گھروں سے تماشائی  بہت کم نکلے تاہم آخری میچوں میں یہ تعداد بڑھ گئی لیکن کراچی شروع سے ہی ایک لاتعلق شہر رہا جہاں تماشائیوں کے بغیر میچز کا حسن دھندلا گیا۔ کراچی میں فائنل کے علاوہ ہر میچ میں بہت کم تماشائی میچ دیکھنے آئے شاید اسکی وجہ غیر معیاری انتظامات، ناقص سٹنڈز اور ٹوائلٹس تھے۔ سٹیڈیم تک پہنچنے کے راستے مشکل اور مبہم تھے جبکہ فیملیز کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے۔

 جنرل انکلوژر کی نشستیں مٹی سے اٹی ہوئی تھیں جبکہ صفائی نہ ہونے کے باعث چاروں طرف بدبو پھیلی ہوتی تھی۔ گراؤنڈ میں جنگلے کے باعث آدھی سے زیادہ نشستیں میچ دیکھنے والوں کے لیے جان کا عذاب تھیں۔

غلط منصوبہ بندی،عدم دلچسپی اور بدترین انتظامات نے کراچی کو پی ایس ایل سے لاتعلق رکھا  اور اگر سہولیات نہ مہیا کی گئیں تو آئندہ سال بھی کراچی مایوس کرے گا۔ 

عمومی طور پر نویں ایڈیشن میں کوئی جدت نظر نہیں آئی۔  افتتاحی تقریب کی طرح اختتامی تقریب بھی افراتفری کا شکار رہی۔ مختصر سی آتش بازی نے مزید رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ 

رمیز راجہ جیسے مقبول اینکر کی موجودگی میں ارن ہالینڈ سے فائنل کی نظامت بے معنی نظر آئی۔ اختتامی تقریب میں سٹیج پر درجنوں مہمانوں کی موجودگی نے سیاسی جلسے کا منظر پیش کیا۔ پی ایس ایل ڈائریکٹر نائلہ بھٹی کا سٹیج پر موجود ہونا سمجھ سے بالاتر تھا۔

پی ایس ایل کا میلہ تو تمام تر بد انتظامی کے ساتھ اختتام کو پہنچ گیا لیکن کیا اس کے ہیروز جنہوں نے لیگ کو اپنی کارکردگی سے مقبولیت بخشی، قومی ٹیم تک پہنچ سکیں گے؟

یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب صرف چیف سیلیکٹر وہاب ریاض دے سکتے ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ