حکومت پاکستان نے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کی وطن واپسی سے متعلق پالیسی کے تحت مزید افغان باشندوں کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
نگران حکومت کے زیرانتظام گذشتہ برس اکتوبر میں شروع کیے گئے اس مہم کے تحت تاحال تقریباً پانچ لاکھ افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجا جا چکا ہے جبکہ حکام کے مطابق اس سلسلہ کی دوسری کڑی کا آغاز 15 اپریل کے بعد مشاورت سے ہوگا۔
وفاقی وزارت داخلہ کے حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ 15 اپریل کے بعد افغان باشندوں کے انخلا سے متعلق مشاورت کا باقاعدہ آغاز ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ اس بارے میں پالیسی مرتب کیے جانے کے بعد اس عمل کا آغاز ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ تاہم ’ملک چھوڑنے کے لیے ان افراد کو 30 روز کا وقت دیا جائے گا۔‘
پاکستانی میڈیا میں چند روز سے یہ خبریں چل رہی ہیں کہ حکومت نے غیرقانونی باشندوں کو ملک بدر کرنے کا دوسرا مرحلہ 15 اپریل سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور دوسرے مرحلے میں سات لاکھ افغان کارڈ ہولڈرز کو واپس بھیجنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
البتہ وفاقی وزارت داخلہ کے عہدیدار نے بتایا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو بھیجنے سے متعلق تعداد کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ ان افراد کو بھیجنے کے کل تین مراحل ہیں تاہم اس پلان پر عمل درآمد ہونے سے متعلق ٹائم لائن کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دوسرے مرحلہ میں افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والوں کو افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔
واپسی کی مہم کے تیسرے مرحلہ میں پروف آف ریزیڈنس (پی او آر) کارڈ رکھنے والوں کو ان کے وطن واپس بھیجا جائے گا۔ ’تاہم اس پر عمل درآمد کرنے یا نہ کرنے سے متعلق وقت پر پتہ چلے گا۔‘
وزارت داخلہ کے عہدیدار نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کو ملک بھر سے نکالا جائے گا۔ ’صرف ایک صوبہ سے باشندے نکالنے کی بات نہیں کی جا رہی ہے۔ تاہم اس حوالے سے خصوصی طور پر صوبہ پنجاب کے ساتھ اشتراک کیا جائے گا۔‘
اس حوالے سے سیکرٹری وزارت داخلہ آفتاب درانی کے زیر صدارت ایک اجلاس بھی ہوا جس میں صوبوں کے حکام نے شرکت کی۔ افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے افراد کو پہلے رضاکارانہ طور پر واپس جانے کا کہا جائے گا۔ یہ مرحلہ بھی پہلے مرحلے کی طرح ہوگا یعنی جو افراد رضاکارانہ طور پر اپنے ملک واپس نہیں جائیں گے انہیں ڈی پورٹ کیا جائے گا۔
وزارت داخلہ کی جانب سے اس مرحلے کو تقابلی طور پر قدرے آسان اس لیے بھی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ حکومت کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کا ڈیٹا موجود ہے۔
سابق نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے افغان سٹیزن کارڈ اور پروف آف ریزیڈنس ہولڈرز سے متعلق گذشتہ برس 25 اکتوبر کو انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس تاثر کو رد کیا تھا کہ یہ انخلا صرف غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں تک محدود ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے اس بارے میں مشاورت ایک ایسے وقت ہوگی جب پاکستان کی جانب سے افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور حافظ گل بہادر گروپ کے مبینہ ٹھکانوں پر حملے کے بعد دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کشیدہ سمجھے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیرملکی شہریوں کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا اور یکم نومبر سے ایسے افراد کی املاک ضبط کرنے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ حکومت کے مطابق یہ فیصلہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے پس منظر میں کیا گیا۔
اس معاملے پر صحافی احسان اللہ ٹیپو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کے اس اقدام کو حالیہ دنوں میں سرحد پر کشیدگی کے ردعمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو درست عمل نہیں ہے۔ تاہم اسے جس طرح سے اچانک دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے اس میں ردعمل کا عنصر ضرور موجود ہے۔
احسان اللہ کے مطابق یہ ردعمل اس لیے ہے کیونکہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین بظاہر دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اس عمل کو بین الاقوامی سطح پر زیادہ تنقیدی نظر سے نہیں دیکھا گیا کیونکہ شاید پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو تقریبا 40 سال رکھا۔
’اس سب سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر اثر پڑے گا۔ افغانستان میں جہاں حکومتی سطح پر پاکستان مخالف جذبات ہیں وہیں عوام میں بھی ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کو لے کر سمجھوتہ نہ کرنے والا رویہ رکھا ہوا ہے جس کی مثال افغانستان میں کیے گئے حملے ہیں۔‘
احسان اللہ کے مطابق نومنتخب حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے تناظر میں افغانستان سے متعلق پالیسی سخت ہوگی۔ اور اس معاملے میں سویلین حکومت کی بجائے ملٹری اسٹیبلشمنٹ بڑا کردار ادا کرے گی۔
دوسری جانب انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل دستاویزات کے مطابق پہلے مرحلے میں پانچ لاکھ 14 ہزار 939 غیرقانونی غیرملکی باشندے واپس بھیجے جا چکے ہیں۔ سب سے زیادہ افراد صوبہ خیبر پختونخوا سے بھیجے گئے جن کی تعداد دو لاکھ 72 ہزار 149 ہے۔
بلوچستان سے ایک لاکھ 48 ہزار 963 افراد واپس بھیجے گئے۔ سندھ سے 68 ہزار 323 جبکہ پنجاب سے 23 ہزار 805 باشندے واپس گئے۔
اسلام آباد سے 162، گلگت سے ایک اور کشمیر سے ایک ہزار 536 غیرقانونی غیرملکی افراد واپس بھیجے گئے۔