جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ریٹائرڈ جج کے طور پر ملنے والی تمام مراعات دی جائیں۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی (تصویر: اسلام آباد ہائی کورٹ)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت صدیقی برطرفی کیس میں 23  جنوری کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو کہ 22 مارچ کو سنایا گیا۔

سابق جج شوکت صدیقی کی 2018 میں خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر برطرفی کے خلاف درخواست کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ’شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیلیں منظور کی جاتی ہیں۔ شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ جج کے طور پر ملنے والی تمام مراعات دی جائیں۔‘

مزید کہا گیا کہ ’کیس تاخیر سے مقرر ہونے کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی کی عمر 62 سال پوری ہو چکی ہے۔ عمر پوری ہونے کی وجہ سے اب شوکت عزیز صدیقی کو عہدے پر بحال نہیں کیا جاسکتا، لہذا انہیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جائے گا۔‘

شوکت عزیز صدیقی کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے دوران بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس خطاب میں خفیہ اداروں پر شدید تنقید کی تھی۔

اپنی برطرفی کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس کی سماعت کافی عرصے تک جاری رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مارچ 2020 میں شوکت صدیقی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کو لکھے گئے خط میں معاملے کی جلد سماعت کی استدعا کی تھی۔ اس سے قبل بھی وہ کم از کم ایسے تین خط لکھ چکے تھے۔

اپنے خط میں انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ 11 اکتوبر 2018 سےاب تک ان کی درخواست التوا کا شکار ہے اور ابتدائی مراحل کی کارروائی بھی ممکن نہیں ہوئی۔

دو صفحات پر مشتمل اس خط میں شوکت عزیز صدیقی کا موقف تھا کہ ان کی اپیل میں سماعت کے لیے تاخیر روا رکھی گئی ہے، لہذا اس کا مناسب سدباب کیا جائے۔

درخواست میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عدالت عظمیٰ کو اس عمومی تاثر کو سنجیدگی سے زائل کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ آئینی درخواست کو 30 جون 2021 تک زیر التوا رکھنا کسی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ میری ریٹائرمنٹ کی تاریخ گزر جائے اور آئینی درخواست چند اہم امور کے حوالہ سے غیر موثر ہو جائے۔‘

جسٹس شوکت صدیقی نے اپنے خط میں یہ بھی کہا تھا کہ اس مسلسل التوا کے نتیجے میں وہ اور ان کا خاندان ذہنی پریشانی اور اضطراب میں مبتلا ہیں، جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

سپریم کورٹ میں اپیل کب دائر ہوئی؟

11 اکتوبر 2018 کو دائر کی گئی  درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ ’جوڈیشل کونسل نے آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیر ٹرائل کا حق نہیں دیا اور درخواست گزار کو آئینی حق سے محروم رکھا گیا۔ درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل کو الزامات کی انکوائری کرنی چاہیے تھی۔ اس تمام کارروائی کا مقصد مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا۔‘

شوکت صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر جج تھے اگر شوکت صدیقی کو فوری کارروائی کر کے اکتوبر 2018 میں برطرف نہ کیا جاتا تو 26 نومبر 2018 کو انہوں نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا حلف اُٹھانا تھا۔

انہوں نے اپنی درخواست میں کونسل کی جانب سے برطرفی کی سفارش کو بدنیتی قرار دیا۔

جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف ریفرنس کیا تھا؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر سابق جج شوکت صدیقی کو اکتوبر 2018 میں خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ کونسل کا موقف یہ تھا کہ ’شوکت صدیقی بطور جج مِس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے نامناسب الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ اس لیے آرٹیکل 209  کے تحت انہیں عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی جاتی ہے۔‘

چونکہ شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی بار میں خطاب کے دوران حساس اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کے الزامات عائد کیے تھے۔ جس کے بعد اُن کے بیان پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے بھی رد عمل سامنے آیا تھا جس میں ریاستی اداروں پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان