کیا بھارت سے متعلق پاکستانی فیصلے جذباتی ہوتے ہیں؟

کشمیر کی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد پاکستان نے جذبات میں آکر بھارت سے تجارتی تعلقات منقطع کردیے، جس سے بہت سی صنعتوں کو نقصان ہوا۔ عالمی عدالت جانے کا بھی اعلان ہوا، جسے خصوصی حکومتی کمیٹی نے رد کردیا۔

ایک تجزیہ کار کے خیال میں بھارتی حکومت اور عوام پاکستان سے متعلق زیادہ جذباتی ہیں۔(اے ایف پی)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت کے خاتمے کے حوالے سے پانچ اگست کے متنازع فیصلے کے بعد پاکستان نے اپنے پڑوسی ملک سے تجارتی تعلقات منقطع کر دیے، تاہم کچھ ہی روز بعد محسوس ہوا کہ پاکستان میں دوا سازی کی صنعت میں استعمال ہونے والے خام مال کا بہت بڑا حصہ بھارت سے آتا ہے۔ یوں حکومت نے نئے حکم نامے کے ذریعے دوا سازی سے متعلق تجارت پر سے پابندی ختم کر دی۔

آئندہ کچھ ہفتوں میں دوسری کئی اجناس کی درآمد پر سے بھی پابندی  ہٹائے جانے کے امکانات موجود ہیں۔ 

اسی طرح سالِ رواں کی ابتدا میں بھارتی حملوں کے بعد بھارت کے لیے فضائی حدود بند کر دی گئی تھیں، جس سے پاکستان کو ساڑھے آٹھ ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف پاکستان نے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) جانے کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی بنائی گئی، تاہم بین الاقوامی قوانین کے مطالعے کے بعد حکومتی کمیٹی نے عالمی عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹانے کا مشورہ دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہاں سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں بھارت سے متعلق ایسے فیصلے کیوں لیے جاتے ہیں، جنہیں واپس لینا پڑتا ہے یا جن سے ملک کو نقصان پہنچنے کا احتمال موجود ہوتا ہے؟

ماہرین کے خیال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی ایک بہت بڑی تاریخ ہے، جس کے باعث دونوں پڑوسی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے جذباتی فیصلے بھی کرلیتے ہیں۔

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز سے منسلک پروفیسر رسول بخش رئیس کہتے ہیں: ’خارجہ پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنے میں جذبات ایک حد تک ضرور کردار ادا کرتے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’صرف پاکستان اور بھارت کی خارجہ پالیسیاں جذبات جیسے عوامل سے متاثر نہیں ہوتیں بلکہ ایسا ساری دنیا میں ہوتا ہے۔ حکومتوں کو اپنی خارجہ پالیسیوں میں عوامی رائے ہموار کرنا ہوتی ہے اور اسی لیے جذبات کا عمل دخل بڑھ جاتا ہے۔‘

’جذبات فیصلوں پر حاوی‘

انٹرنیشنل سٹڈیز کے استاد اور تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کہتے ہیں: ’معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر فیصلے جذبات کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’خارجہ پالیسی سے منسلک فیصلے ایڈہاک ازم کی بنیاد پر نہیں کیے جانے چاہییں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’ایسے فیصلے ایک مرتبہ لے کر واپس نہیں لینے چاہییں، پہلے ہی دیکھ لیا جانا چاہیے کہ کسی مخصوص فیصلے سے کیا اور کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔‘

صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ ’کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس کی سلامتی، اندرونی حالات، استحکام اور علاقائی سیاست کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی ہے اور یہ سب کچھ نہایت ہی سنجیدگی سے کیا جاتا ہے نہ کہ محض جذبات کی بنیاد پر۔‘ خارجہ پالیسی پر عمل درآمد کے سلسلے میں انہوں نے جذبات کی تھیوری سے اتفاق کیا۔

ان کا کہنا تھا: ’لگتا ہے پاکستان میں یہ مسئلہ نسبتاً زیادہ سنگین صورت میں موجود ہے۔‘

تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ ’جذبات کا تعلق قوم پرستی سے زیادہ ہوتا ہے اور جب قوم پرستی انتہا کو چھونے لگے تو ایسی صورت میں جذبات کو الگ رکھنا تقریباً ناممکن ہو جایا کرتا ہے۔‘

رسول بخش رئیس کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم نہیں کرنے چاہیے تھے۔‘

ان کے خیال میں ایسے اقدامات کے ذریعے حکومتیں عوام کو باور کرانے کی کوشش کرتی ہیں کہ حکومتی سطح پر کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ تاہم اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک سینٹر آف سٹریٹیجک سٹڈیز (سی آئی ایس ایس) کے سینیئر ریسرچ فیلو زوار حیدر عابدی کے مطابق: ’خارجہ پالیسی صرف زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھتے ہوئے بنائی جاتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عوامی رائے کو ضرور مد نظر رکھا جاتا ہے، لیکن جذبات کا خارجہ پالیسی بنانے میں کوئی عمل دخل نہیں ہو سکتا۔‘

پاکستان کی جانب سے بھارت کے ساتھ تجارتی پابندیوں سے متعلق فیصلوں میں تبدیلی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے اقدامات اس لیے ہوتے ہیں کہ مخالف ملک کو پہنچنے والی تکلیف کا اندازہ لگایا جائے جبکہ تمام تر دشمنیوں اور مخالفتوں کے باوجود ملکوں کے درمیان ٹریک ٹو ڈپلومیسی موجود ہوتی ہے اور فیصلوں میں تبدیلیاں اِن بیک ڈور مذاکرات کے باعث بھی ہو سکتے ہیں۔‘

کیا بھارت جذباتی فیصلے کرتا ہے؟

زاہد حسین کے خیال میں بھارتی حکومت اور عوام پاکستان سے متعلق زیادہ جذباتی ہیں۔

اس سلسلے میں انہوں نے بھارت میں پاکستانی ٹی وی چینلز اور پاکستانی ڈرامے دکھانے پر پابندی کا ذکر کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت بھارتی تاجر پاکستانی مال کی خرید و فروخت سے گریز کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی پیاز پر بھارت میں پہلے سے پابندی موجود ہے۔‘

اسی طرح انہوں نے بھارتی حکومت کی جانب سے اپنی کرکٹ ٹیم پر پاکستان کا دورہ کرنے پر پابندی کا ذکر بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’بھارتی حکومت بھی خصوصاً پاکستان سے متعلق جذبات سے مغلوب ہو کر فیصلے کرتی ہے اور تقریباً اسی طرح کا جواب پاکستان کی طرف سے بھی جاتا ہے۔‘

جذباتی فیصلے کیوں؟

پروفیسر رفعت حسین نے کہا کہ پاکستان کی بھارت سے متعلق پالیسیاں طویل مدتی نہیں ہوتیں بلکہ ان میں خوف اور ڈر کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں کوئی ایریا سٹڈی سنٹر بھارت سے متعلق کام نہیں کر رہا۔ ’پاکستان میں عوام کی رائے بنائی جاتی ہے اور پھر اس کے مطابق خارجہ پالیسی آتی ہے۔‘

پروفیسر رفعت حسین نے بھارت کے پانچ اگست کے فیصلے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پوری طرح سوچ سمجھ کر اور حالات و واقعات کا جائزہ لے کر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا قدم اٹھایا جبکہ پاکستان میں ہم نے کبھی بھارت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کی نسبت بھارت کے فیصلے نسبتاً زیادہ منطقی اور طویل مدتی ہوتے ہیں۔‘

زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کی خارجہ پالیسیوں میں ادلے کے بدلے کا عنصر زیادہ واضح طور پر نظر آتا ہے اور اسی لیے جذبات غالب آجاتے ہیں۔  

اس حوالے سے زوار حیدر کا کہنا تھا کہ ’بھارت خطے کا بڑا ملک ہے اور پاکستان کبھی اس کی سٹیلائٹ سٹیٹ بن کر رہنا نہیں چاہے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اسی لیے بعض اوقات ایسے فیصلے لے لیے جاتے ہیں جن کا عارضی طور پر نقصان ضرور ہوتا ہے، تاہم کسی ملک کی بالادستی کو چیلنج کرنے کے لیے یہ ضروری بھی ہوتا ہے۔

ان کے خیال میں انسانوں کی طرح ملکوں اور قوموں کی بھی انا ہوتی ہے، جس کو ٹھیس پہنچنے سے ہمیشہ بچایا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان