چین نے مغرب پر کیسے غلبہ پایا؟

اگرچہ چینی کمیونسٹ پارٹی دنیا پر تسلط قائم کرنے کی اپنی کوشش کو ایک جاری تسلسل کہتی ہے لیکن حقیقت میں وہ ایسا کر چکی ہے۔

11 مارچ 2024 کو چین کے صدر شی جن پنگ بیجنگ میں ایک تقریب کے دوران (اے ایف پی/ جیڈ گاؤ)

رواں ماہ کے آغاز پر میں ان درجنوں صحافیوں میں سے میں ایک تھا جنہیں ایک چینی کمپنی نے لان کی گھاس کاٹنے کی روبوٹک مشین کے افتتاح کے لیے جرمنی مدعو کیا تھا۔

یہ کچھ اچھے فیچرز کے ساتھ ایک اچھی مشین ہے جو اس طرح کی پروڈکٹس کے مقابلے میں بہت بہتر ہے لیکن یہاں جانا کئی حوالوں سے اتنا بھی شاندار نہیں تھا جیسا کہ اس تقریب میں پیدا ہونے والی بدمزگی کی وجہ سے۔

بیجنگ سے آنے والے کمپنی کے ملازمین کا واضح طور پر اچھا وقت گزر رہا تھا لیکن یہ مقام ایک افسردہ کانفرنس کا منظر پیش کر رہا تھا۔

ظاہر ہے چینی ٹیم نے تنظیمی تفصیلات پر زیادہ غور نہیں کیا تھا جس نے گھنٹوں باہر بارش میں کھڑے بہت سے یورپی صحافیوں کو آگ بگولہ کر دیا۔

تاہم ایک موقعے پر میں نے انتہائی نوجوان سی ای او سے بات کی اور کچھ دلچسپ معلومات حاصل کیں۔

میں نے پوچھا کہ کیا گھاس کاٹنے والی یہ مشین چین میں بھی فروخت کی جائے گی کیونکہ 20 سالوں میں باقاعدگی سے ان کے ملک آنے جانے کے بعد میں کبھی کسی ایسے چینی شہری سے نہیں ملا جس کے گھر میں لان ہو۔

روبوٹکس کے ماہر نوجوان سی ای او نے کہا: ’اوہ نہیں، ہم سب اپارٹمنٹس میں رہتے ہیں۔ چین میں اپنے لان کے ساتھ نجی گھر بہت ہی نایاب ہیں۔‘

یہ تبصرہ اور بے ہنگم لانچنگ ایونٹ ہمیں ان تمام مصنوعات، جن کا بھی آپ نام لیں، میں غلبہ حاصل کرنے میں چین کی بڑھتی ہوئی کامیابی کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔

ایک کم قیمت روبوٹک لان مشین ایک آؤٹ لیئر ہو سکتا ہے لیکن شاید اگر آپ کوئی بڑی چیز لیتے ہیں تو بھی چین کی بہترین بننے کی توانائی کافی خوفناک ہو جاتی ہے۔

مثال کے طور پر چین میں اب 300 سے زیادہ الیکٹرک کار ساز ہیں جن میں سے کم از کم 50 یورپ کو الیکٹرک کاریں برآمد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

حال ہی میں کیے گئے دعوے کے مطابق چینی ہیکر کسی بھی گاڑی کو ہیک کر سکتے ہیں بلکہ اسے سڑک کے درمیان روک بھی سکتے ہیں۔

ایونٹ کے دو دیگر عناصر میرے لیے نمایاں تھے جیسا کہ ایک ایسے شخص کے طور پر جو چین کے بارے میں برسوں سے لکھ رہا ہے اور جس نے ماضی قریب میں کئی چینی یونیورسٹیوں میں خطاب کیا، کمپنیوں کو تربیت دی اور چین میں برطانوی کاروبار قائم کرنے میں مدد کی ہے۔

پہلا یہ کہ لان مشین بنانے والا پروجیکٹ ’سیگ وے‘ ایک امریکی سٹارٹ اپ تھا جو ٹھیک نہیں چلا اور اسے بیجنگ کے روبوٹکس کے کاروبار کو باسکٹ کیس کے طور پر فروخت کیا گیا تھا۔ ہم اسی قسم کی چیزیں باقاعدگی سے ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

دوسرا یہ کہ جرمن ایونٹ میں ہونے والی بدمزگی کی نوعیت کسی بھی شخص کے لیے حیران کن نہیں تھی جو چین کو تھوڑا سا بھی جانتا ہے۔ ادھورا کام یا بالکل کام نہ کرنا وہاں کام کرنے والے مغربی باشندوں کے لیے درد سر ہے۔

یہاں تک کہ مقامی مینڈرن زبان میں ایک جملہ ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’میں نے کچھ ویسا ہی کام کیا ہے جو آپ نے کرنے کو کہا تھا۔‘ یہ غیر ملکی کاروباری شخصیات اور مغرب میں پیدا ہونے والے ان چینیوں، جنہوں نے وہاں کاروبار قائم کیا ہے، کو اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہوں نے ناتجربہ کاروں سے بھری کمپنی کا انتظام سنبھالنا ہو۔

اور پھر بھی جس حد تک چین نے مغرب کی مارکیٹ پر مؤثر طریقے قابض ہونے کی مہم چلا رکھی ہے اسے مزید بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

اگرچہ چینی کمیونسٹ پارٹی دنیا پر تسلط قائم کرنے کی اپنی کوشش کو ایک جاری تسلسل کہتی ہے لیکن حقیقت میں وہ ایسا کر چکی ہے۔

امکانات یہ ہیں کہ آپ جو پروڈکٹس روزانہ استعمال کرتے ہیں ان کی اکثریت یا تو چین سے آتی ہے یا کسی چینی ملکیتی کمپنی نے اسے بنایا ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کو چلانے والی بجلی آپ کو چینی مفادات کے تحت فروخت کی جاتی ہے اور آپ کو یہ الفاظ پڑھنے کے قابل بنانے والی ٹیکنالوجی تک چین کی ہے۔

سینکڑوں بڑے برطانوی کاروبار، یوٹیلیٹی کمپنیوں اور دیگر قومی انفراسٹرکچر سے لے کر ٹیکنالوجی فرمز تک اکثر حساس معلومات جیسے کہ چہرے کی شناخت اور مصنوعی ذہانت، ہوائی اڈوں، پرائیوٹ پراپرٹیز، فٹ بال کلبز، پب چینز اور نجی سکولوں تک نہ صرف امیر چینی شہریوں بلکہ چینی ریاست کی ملکیت ہیں جس کے بارے میں اب ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ سائبر جاسوسی کے ذریعے ہمارے جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کے لیے انتھک محنت کر رہی ہے۔

اطلاعات کے مطابق امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ ملک صرف 50 سال پہلے ناقابل یقین حد تک غریب تھا جہاں 60 سال پہلے قحط کی وجہ سے لاکھوں چینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے تھے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ وہی سیاسی آقا، جو نظریاتیوں کا ایک گروپ ہے، حقیقتاً اب بھی اس ملک کو چلا رہے ہیں، اور یہ عروج حاصل کرنا چین کی گذشتہ 100 سالوں کی سب سے غیر معمولی پیش رفت میں سے ایک ہے۔

جیسا کہ چین کے ایک تعلیمی ماہر پروفیسر جوسیلینو کولارس نے پیر کو کہا تھا: ’چینی عوام ہی چینی کمیونسٹ پارٹی کے سب سے زیادہ ظلم کا شکار ہیں۔‘

اور ابھی تک انہوں نے اس ناقابل یقین جاری بغاوت کو روک رکھا ہے۔ جو چیز مجھے مسحور کرتی ہے وہ صرف یہ نہیں کہ انہوں نے دنیا کو کیسے خریدا ہے بلکہ یہ دیکھنا کہ ان کا محرک کیا ہے۔

میرے لیے یہ تین چیزوں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔

پہلا یہ کہ چین، جس کی ریاست کا نام ’دا مڈل کنگڈم‘ تھا، کا لفظی مطلب دنیا کا مرکز ہے۔

موجودہ سرحدوں اور انہی لوگوں کے ساتھ، جہاں ہنرمند تارکین وطن کی کوئی خاص آمد نہیں ہوئی، انہوں نے 221 اے ڈی میں جدید چین کے ظہور کے بعد سے 1800 سالوں تک دنیا کی قیادت کی اور ان تمام 1800 سالوں کے دوران وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت رہی۔

چینی لوگوں کے لیے 19ویں صدی کے اوائل سے لے کر 1990 کی دہائی تک ملک کی بد قسمتی محض ایک جھٹکا تھا۔

اس کے باوجود 1820 میں جب چین پہلے ہی زوال پذیر تھا، تب بھی وہ دنیا کی جی ڈی پی کے 30 فیصد حصے کا مالک تھا۔

چین کے بعد امریکہ کا حصہ 1.8 فیصد تھا۔ مزید برآں چین کی تاریخی طاقت جارحیت پر نہیں بلکہ اس کی فکری، ثقافتی اور تجارتی صلاحیت پر مبنی تھی۔ کچھ کا کہنا ہے کہ چین ریاست کے مقابلے میں زیادہ مہذب معاشرہ تھا۔

چین کی کامیابی کا دوسرا ممکنہ سرچشمہ صرف تجارتی موقع پرستی ہے۔ وہ جس برطانیہ کو دیکھتے ہیں اب بھی (حیرت انگیز طور پر) دنیا کی نویں سب سے بڑی صنعتی طاقت ہے۔

تاہم اب ئی تیزی سے شراب نوشی، نشے میں دھت رہنا، کام سے دل چرانا، غیر یقینی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا اور بے وقوفانہ معمولی باتوں میں الجھے رہنا جیسے صنف پر ثقافتی جنگیں، بریگزٹ، شاہی خاندان، پروناؤن، ووک ازم اور باقی ماندہ خود ساختہ مسائل کا شکار ہے۔

چینی صدر شی جن پنگ، جنہوں نے کامیابی کے ساتھ خود کو ماؤ دوم میں تبدیل کیا ہے، افرادی قوت کی کارکردگی کے معاملے میں اکثر لاپرواہ اور غیر منظم نظر آتے ہیں۔

لیکن چینی اب بھی ذہین اور پڑھے لکھے ہیں، وہ سخت محنت کرتے ہیں اور محب وطن ہیں اور فیصلہ سازی اور کاروبار میں بہت اچھے ہیں۔

چینی لوگ اتنے کاروباری ذہن کے حامل ہیں کہ یہ یقین کرنا تقریباً ناممکن ہے کہ وہ ایسی ریاست میں رہتے ہیں جو اب بھی سرکاری طور پر کمیونسٹ ہے۔

لہٰذا جب وہ ’سیگ وے‘ جیسا کمزور لیکن دلچسپ امریکی سٹارٹ اپ دیکھتے ہیں تو وہ اس کو بڑھانے اور اگر اس کے لیے کوئی مارکیٹ ہو تو وہ اسے بلندی پر لے جانا شروع کر دیتے ہیں، چاہیے لان کی گھاس کاٹنے والی مشین ہی کیوں نہ ہو۔

صدر شی کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اچھے، ہوشیار لیکن تھوڑے سے بے ترتیب نوجوانوں کی طرف سے ہمیں سمارٹ لان مشین کو خریدنے کے لیے آمادہ کرنا چینی معاشی معجزے کا ایک رخ ہے۔

لیکن وہ سخت گیر پارٹی آئیڈیالوجز کے سپاہی ہیں جنہوں نے برسوں پہلے ’دا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ کے خوش کن اور حیران کن نام کے ساتھ ایک منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کا مقصد بالکل وہی ہے جو وہ کر رہے ہیں یعنی دنیا کو تسخیر۔

اس منصوبے کے مفاد میں سائبر ہیکنگ اور مغرب کو کمزور کرنا بھی کچھ غلط نہیں ہے بلکہ یہ کھیل کا ایک لازمی حصہ ہے۔

اس بات کا کافی امکان ہے کہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے مسلسل اور وسیع پیمانے پر ہیکنگ کے نتیجے میں بیجنگ میں خفیہ چائنیز اکیڈمی آف گورننس سینٹرل پارٹی سکول سے کام کرنے والے پارٹی کے کارکنان کے پاس اس وقت ہر مغربی انٹیلی جنس ایجنٹ اور مغرب میں ہر چین مخالف شخص کا نام اور پتہ موجود ہے۔

کتاب Spycraft Rebooted: How Technology Is Changing Spionage  کے مصنف ایڈورڈ لوکاس کے مطابق چین شاید چہرے کے خدوخال، آوازوں، انگلیوں کے نشانات اور چال، یعنی وہ مخصوص طریقہ جس سے ہم چلتے ہیں، تک کا ڈیٹا حاصل کر چکا ہے۔

اس پر فیصلہ کن ردعمل ظاہر کرنے میں ہماری دائمی سستی ہماری کمزوری کی عکاس ہے جو جان لیوا ہو سکتی ہے۔

یہاں سن زو کی مشہور ’دی آرٹ آف وار‘ کا حوالہ دینا شاید کچھ زیادہ ہی ہے لیکن بہت سے فوجی جنرل اور فلسفی دو ہزار سال پہلے لکھ چکے تھے جن میں سے ایک نکتہ اب بھی لاگو ہوتا ہے یعنی ’دشمن کو شکست دینے کا موقع دشمن خود فراہم کرتا ہے۔‘

میں نے ’کیس ویسٹرن یونیورسٹی‘ کے پروفیسر کولارس سے ان کی وضاحت کے لیے پوچھا کہ چین، کسی نہ کسی لحاظ سے ہمارے ساتھ ’جنگ‘ میں کیوں مشغول ہے۔

اس پر ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑھ کر اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آبادیاتی مسائل، یعنی بنیادی طور پر خواتین کی کمی جو ماؤ کی چین کی تباہ کن ون چائلڈ کی پالیسی سے پیدا ہوئی، سے متاثر ہونے سے پہلے اپنے آپ کو پہلے درجے کی معیشت کے طور پر قائم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

ان کے بقول: ’چین درمیانی آمدنی کے جال سے بچنا چاہتا ہے جو ایسی صورت حال ہے جس میں برازیل، ترکی اور میکسیکو جیسے ممالک نے کچھ ترقی تو کی لیکن وہ اس مرحلے سے اگے نہیں بڑھ پائے کیونکہ وہ ہمیشہ اسی جال میں جکڑے رہے ہیں۔ اور ایسا (پائیدار ترقی پانے) کا ایک طریقہ ریاست کے زیر انتظام تجارت میں توسیع ہے۔‘

انہوں نے کہا اس کا ایک اور عنصر بھی ہے اور وہ نسلی برتری کا احساس ہے جس میں اقلیتوں کے حقوق کو کچل دیا جاتا ہے اور ریاست اختلاف رائے کی بالکل بھی اجازت نہیں دیتی۔ یہ اب بھی کمیونسٹ کی ذہنیت ہے۔

ان کے بقول: ’چین اپنی طاقت کو ملک سے باہر تک توسیع دینا چاہتا ہے تاکہ وہ انقلاب کو بڑھا سکیں۔ یہ پارٹی کی سوچ کی نمائندگی کرتی ہے۔‘

کولارس نے کہا کہ آخر میں چین کی نوآبادیاتی استحصال کی تاریخ کی باقیات آتی ہیں۔ ’چینیوں میں مغرب کے خلاف شدید ناراضی پائی جاتی ہے۔ یہ ناراضی کافی حد تک مغرب پر غلبہ حاصل کرنے اور انہیں یہ دکھانے کے لیے تحریک پیدا کرتی ہے کہ یہ ہمارا وقت ہے۔‘

یقین کریں یا نہ کریں لیکن چین کے 27 دوروں میں سے میرے پسندیدہ مشاہدات میں شنگھائی کے ’دا بنڈ‘ علاقے کے مین ہول کے ڈھکن ہیں۔ مجھے شک ہے کہ بہت سے سیاحوں نے اسے نوٹ کیا یا نہیں لیکن ان آہنی ڈھکنوں پر ابھرے ہوئے مغربی حروف SMC-PWD (Shanghai Metropolitan Council Public Works Department) درج ہیں۔

اس کا مطلب شنگھائی میٹروپولیٹن کونسل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ ہے اور یقیناً یہ ان دنوں کی یادگار ہے جب شہر پربرطانوی نوآبادیاتی دور کا راج تھا۔

کیا یہ فخر کی بات نہیں ہے، حیرت انگیز طور پر اگر آپ ایک چینی سرمایہ کار ہیں اور دیگر بہت سے افراد جن کے دادا دادی نوآبادیاتی دور کے ان ڈھکنوں پر چلتے تھے، اب ایک پرائیویٹائزڈ برطانوی واٹر کمپنی کے مالک ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا