پکوڑے اور رمضان لازم و ملزوم کیوں ہیں؟

پکوڑہ غریب پرور پکوان ہے جو جیب پر نہ سہی پیٹ پر تو ضرور بھاری رہتا ہے، یعنی کافی دیر تک بھوک نہیں لگتی، شاید اسی لیے پاکستان میں ہر ریلوے سٹیشن پر نان پکوڑے کا ڈھابہ مل جاتا ہے۔

سات اپریل 2010 میں امرتسر میں ایک دکان میں پکوڑے کی اقسام (اے ایف پی/ نریندر نانو)

پکوڑہ پہلے آیا یا رمضان؟ یہ مقولہ سننے میں بالکل ایسا ہی ہے جیسے انڈہ پہلے آیا یا مرغی۔ لیکن جناب تاریخ کے پنوں اور مورخین کے مطابق پکوڑے بنانے کی لت انسان کو روزے فرض ہونے کے بعد ہی لگی تھی۔

 گوگل نے بتایا کہ 1025 عیسوی کے پکوان میں پکوڑہ اپنی جگہ بنا چکا تھا۔ سنسکرت اور تامل سنگم ادب کے مطابق دو کتابوں، ’منا سولاسا‘ اور ’لوکو پراکا‘ جو کہ 1025 سے 1130 عیسوی میں تحریر کی گئیں، پکوڑوں کا ذکر پایا جاتا ہے۔

 یہ سنسکرت زبان کے دو الفاظ ’پکوا اور واتا‘ سے مل کر ’پکواوتا‘ کہلاتا تھا۔ پکوا کے معنی پکا ہوا اور واتا کے معنی گٹھلی کے ہیں۔ یعنی بیسن اور سوکھے مصالحوں کا ایسا آمیزہ جس میں آلو اور پیاز کو ملا کے تلا جاتا ہو۔

’لوکوپراکا‘ میں ایسا بھی درج تھا کہ بیسن کے آمیزے کو مچھلی کی شکل والے سانچوں میں ڈھال کر سرسوں کے تیل میں تلا جاتا تھا۔ چونکہ اس کی پیدائش ہندوستان کی ہے تو علاقائی نام بھی زیادہ تر ہندوستانی میں ہی ملتے ہیں، تامل ناڈو یا سری لنکا میں اسے، پکوڑہ یا بھجی کہتے ہیں، گجرات میں بھجیا، مہا راشٹرہ میں بھاجی، اتر پردیش، پنجاب اور پاکستان بھر میں پکوڑہ ہی کہلایا۔

 جب کے بنگال میں ’بیگنی‘ تو بہار میں مونگ مسور کی دالوں کو پیس کر بنائے جانے والے پیاز کے پکوڑے کو ’پیازو‘ کہتے ہیں۔

سب ہی علاقوں میں جہاں پکوڑے کی تاریخ کو کریدا جائے تو کشمیر میں کنول کی جڑ سے بنے ’ندرمونجی‘ کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے۔

ہندوستان کے خوراک کے تاریخ دان پشپیش پنت جی کے مطابق، ’پکوڑہ برصغیر پاک و ہند کے موسم سے میل کھاتا ہے اور اس کا شمار پکوان میں ہوتا ہے، کیونکہ گرم موسم میں یہ پکوان خراب نہیں ہوتا اور اسے آپ دوبارہ کڑہائی سے نکال کر تازہ کر سکتے ہیں، یعنی نیم فرائی کر کے رکھ لیے اور افطار کے وقت دوبارہ گرما گرم نکال لیے۔‘

پکوڑوں کی تازگی اور کرکرے پن کو برقرار رکھنا ہی اس کا اصل لطف ہے۔

اسی بارے میں، میڈم نورجہاں کے گھرانے کی بہو عائشہ بٹ جو لاہور میں ’یہ گھر کا ہے‘ کے نام سے کیٹرنگ سروس کرتی ہیں ان کا کہنا تھا کہ ’میں رمضان میں پکوڑوں کا آرڈر نہیں لیتی کیونکہ بنا کر رکھنے سے ان کا ذائقہ اور ساخت یا پکوڑہ باسی ہو جاتا ہے اور مزہ نہیں آتا۔ میں صرف آرڈر پہ بیسن کا آمیزہ بنا کے دے دیتی ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پکوڑے کا گرم نرم یا کُرکُرا ہونا بھی ہماری زبان کا چٹخارہ ہی تو ہے، دیکھا جائے تو جتنی تعداد میں حلوائی کی دکانوں کے باہر پورا رمضان پکوڑوں کی کڑاہی چڑھی رہتی ہے شاید اسی قدر لوگ گھروں میں بھی افطار کے لیے پکوڑے تل رہے ہوتے ہیں۔

شیف زبیدہ طارق مرحومہ جنہیں ہم سب زبیدہ آپا کے نام سے آج بھی یاد کرتے ہیں، ان کے ٹوٹکے اور کھانے پاکستان کے ہر کچن کی رونق رہے ہیں۔

ان کی صاحبزادی شاہا جمشید سے بھی میں نے پکوڑوں کی ڈیمانڈ اور باریکی پر بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’پکوڑوں کے بغیر افطار اور رمضان کا تصور مکمل نہیں ہوتا، سبزی کے پکوڑے خاص کر آلو کا پکوڑہ آج بھی سر فہرست ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’امی پکوڑوں کے بیسن میں تھوڑا میٹھا سوڈا بھی ملایا کرتی تھیں جس سے پکوڑے گٹھلی جیسے نہیں بلکہ ہلکے پھلکے رہتے ہیں۔‘

لیکن اگر بازار میں ملنے والے پکوڑوں کی بات کریں تو وہ گٹھلی نما ہی ہوتے ہیں، بیسن میں لتھڑے ہوئے آلو، پالک پیاز کے پکوڑے۔ وقت کے ساتھ ساتھ چکن، مچھلی اور قیمے کے پکوڑے بھی اب ملتے ہیں۔

پشپیش پنت جی کے مطابق، ’رہی بات پکوڑوں کے رمضان میں لازم و ملزوم ہونے کی، تو دن بھر کے روزے کے بعد جہاں کھجور اور دیگر کھانے کھائے جاتے ہیں ایسے میں بیسن کے پکوڑے کا اپنا ہی مزہ ہے جو مختلف چٹنیوں کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔‘

گوشت اور انڈے کی پکوڑوں میں گھلاوٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پشپیش جی کا کہنا تھا کہ ’جن لوگوں کے لیے شراب حرام نہیں وہ اس کے ساتھ چکن مچھلی یا ابلے انڈوں کے پکوڑے بھی نوش کرتے ہیں۔‘

پکوڑہ غریب پرور پکوان بھی ہے جو جیب پر بھاری نہ سہی پیٹ پر تو ضرور رہتا ہے، یعنی کافی دیر تک بھوک نہیں لگتی، شاید اسی لیے پاکستان میں ہر ریلوے سٹیشن پر نان پکوڑے کا ڈھابہ مل جاتا ہے۔

تہوار ہو یا مزار، رمضان ہوں یا گھر پر مہمان، سب ہی کے دلوں پر راج کرتا ہے گرما گرم پکوڑہ۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ