چینی شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے جغرافیائی و سیاسی مضمرات

بیجنگ نے اپنے شہریوں کے تحفظ پر اظہار تشویش اور حکومت پاکستان سے حفاظتی اقدامات کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے عسکریت پسندوں کے حملوں سے منصوبوں پر کام متاثر نہیں ہو گا۔

26 مارچ، 2024 کو شانگلہ میں سکیورٹی اہلکار خودکش حملے کی جگہ کا معائنہ کرتے ہوئے (اے ایف پی)

پاکستان میں پھر چینی شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کا ایک اور واقعہ پیش آیا ہے جس میں سکیورٹی میں سنگین کوتاہیوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

حالیہ واقعہ گذشتہ ماہ اس وقت پیش آیا جب ایک خودکش بمبار نے شمال مغربی صوبے کے دور افتادہ ضلع کوہستان، جہاں ایک اہم ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم تعمیر کیا جا رہا ہے، میں دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی ایک قافلے سے ٹکرا دی۔ پانچ چینی مزدور جان سے گئے۔

ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں ملک کے مختلف حصوں میں چین کے مفادات پر یہ تیسرا بڑا حملہ تھا اور اس نے پاکستان کی قومی سلامتی کے چیلنجوں کو مزید بڑھا دیا تھا۔

چینی شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سنگین جغرافیائی سیاسی مضمرات بھی ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت ہزاروں چینی کارکن ملک میں اربوں ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملے چین کے ساتھ اس کی ’سدا بہار‘ دوستی میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کا حصہ ہیں۔ دونوں ممالک طویل عرصے سے قریبی سٹریٹجک اتحاد میں بندھے ہوئے ہیں اور چین کی مختلف ترقیاتی منصوبوں میں 65 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری سے ان کے تعلقات گذشتہ برسوں میں مزید مضبوط ہوئے ہیں۔

ان منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں پر حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات تشویشناک ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ بیجنگ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔

بیجنگ نے اپنے شہریوں کے تحفظ پر اظہار تشویش اور حکومت پاکستان سے حفاظتی اقدامات کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے عسکریت پسندوں کے حملوں سے منصوبوں پر کام متاثر نہیں ہو گا۔

چینی حکومت نے دھماکے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ تاہم، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے میں پاکستان کی ناکامی کے متعلق سوالات موجود ہیں۔

’سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کے خلاف دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ‘

گذشتہ ماہ ہونے والا خودکش حملہ کوہستان کے علاقے میں اس قسم کا دوسرا حملہ تھا۔ بجلی کے منصوبے پر کام کرنے والے نو چینی انجینئرز 2021 میں خود کش بم دھماکوں میں مارے گئے تھے جس کے بعد چینی کمپنی کو مجبوراً کئی ماہ تک کام عارضی طور پر روکنا پڑا تھا۔

حکومت پاکستان کی جانب سے سکیورٹی بڑھانے کی یقین دہانی کے بعد کمپنی واپس آ گئی۔

لیکن پاکستان کو چین سے ملانے والی شاہراہ قراقرم کے آس پاس کے اسی علاقے میں ہونے والے حالیہ حملے نے چینی عملے کی سکیورتی کے بارے میں نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ دونوں حملے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ عسکریت پسندوں نے کیے تھے۔ اس گروپ نے گذشتہ چند برسوں کے دوران شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی) میں اپنی کارروائیاں بڑھا دی ہیں۔
کوہستان کا علاقہ طویل عرصے سے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے لیکن افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان بارہا کابل حکومت پر سرحد پار دہشت گرد حملوں میں ملوث عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق 2021 کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ افغانستان کے صوبے کنڑ، جو ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی اہم پناہ گاہ بن چکا ہے، میں ایک ڈرون حملے میں مارا گیا۔

تاہم اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ بلوچستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کے خلاف دہشت گرد حملوں میں واضح اضافہ ہوا ہے۔

یہ حملے بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کی جانب سے کیے گئے ہیں جو ریاست پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں۔

مکمل طور پر متنوع ایجنڈوں اور ملک کے مختلف حصوں میں کام کرنے والے عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے چینی شہریوں کو نشانہ بنانا کافی دلچسپ ہے۔

کوہستان بم دھماکوں سے قبل بلوچستان میں چینی تنصیبات پر دہشت گرد حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ 20 مارچ کو مسلح افراد نے گوادر بندرگاہ پر دھاوا بولا جسے چین تیار اور استعمال کر رہا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اربوں ڈالر کی لاگت سے تعمیر کی جانے والی بندرگاہ سی پیک کا مرکز ہے۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے فائرنگ کے تبادلے میں متعدد عسکریت پسند اور پاکستانی فوجی جان سے گئے۔

علاقے میں سرگرم علیحدگی پسند گروہوں میں سب سے نمایاں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

چند دن بعد 25 مارچ کو اس گروپ نے گوادر بندرگاہ کے قریب تربت قصبے میں پاکستانی بحری اڈے پر حملہ کیا جس میں کم از کم ایک نیم فوجی اہلکار مارا گیا۔ شورش زدہ صوبے میں کم شدت کی شورش میں اضافہ ہوا ہے۔

علیحدگی پسند گروہ اب زیادہ منظم اور بہتر مسلح دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے سی پیک منصوبوں کو مقامی بلوچ آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے منصوبے کا حصہ قرار دیا ہے۔

ایک خطرناک پیش رفت میں، بی ایل اے نے چینی شہریوں کے خلاف اپنی عسکری سرگرمیوں کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور اہم مالیاتی مرکز کراچی تک بڑھا دیا ہے۔ دو سال قبل ایک خاتون خودکش بمبار نے کراچی یونیورسٹی میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جس کے نتیجے میں تدریسی عملے کے تین چینی مارے گئے تھے۔

پاکستان نے حالیہ دہشت گرد انہ حملوں کا الزام ’غیر ملکی عناصر‘ پر لگایا ہے۔ ایک بیان میں فوج کے ترجمان نے کہا کہ ملک کی سٹریٹجک تنصیبات پر حملے اور چینی شہریوں کو نشانہ بنانا ’پاکستان اور اس کے سٹریٹجک اتحادی کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔‘

حالیہ دہشت گرد انہ حملوں میں غیر ملکی عناصر کے ملوث ہونے کے الزامات میں یقینی طور پر کچھ سچائی ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے اور اپنا گھر منظم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر