سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب اور سید یوسف رضا گیلانی کی بلامقابلہ کامیابی سے ملک کے تمام آئینی ادارے فعال ہو چکے ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بن چکی ہیں، وزیراعظم، صدر مملکت اور وزیراعلیٰ اپنے عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں۔
تین صوبوں میں 2018 کے انتخابات کے بعد والی صورت حال ہے، یعنی سندھ میں پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل اور بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم ہوئی ہے، جب کہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
پارلیمانی حکومتیں قائم تو ہو چکی ہیں، اب ان کی بالادستی قائم ہونا ضروری ہے، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم آتے جاتے رہیں گے، یہ اہم نہیں ہے۔ اہم ترین یہ ہے کہ قومی فصلے ہونے چاہییں، اندرونی معاملات پر ہوں یا بین الاقوامی تعلقات پر سب پارلیمان میں ہوں، آرڈیننسوں کا سلسلہ صرف ناگزیر حالات کے تحت ہی ہونا چاہیے۔
سطح پر بظاہر سب اچھا نظر آ رہا ہے لیکن اگلے دو ماہ کے اندر اندر کچھ ایسے واقعات و معاملات ہونے جا رہے ہیں جس سے یہ سارا نظام ہلچل کا شکار ہو سکتا ہے۔
سب سے پہلا تنازع تو فارم 45 اور 47 کی مد میں ہے اور ابھی تک حل طلب ہے۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے پر اس وقت تک آمادہ نظر نہیں آ رہی جب کہ اس انتخابی تنازعے کو الیکشن جوڈیشل کمیشن کے ذریعے حل نہیں ہو جاتا۔
میری اطلاع کے مطابق پس پردہ اعلیٰ مقتدر حلقوں نے اس تنازعے کو الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں پر چھوڑ دیا ہے اور یہی قانون کے مطابق آئینی فورم ہے۔
الیکشن ٹربیونلز کو قانون کے مطابق چار مہینوں کے اندر اپنا فیصلہ دے دینا چاہیے اور حالات واقعات سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں سے تحریک انصاف کے آزاد ارکان کو 30 سے 40 نشستیں مل جائیں گی۔
لیکن تحریک انصاف الیکشن جوڈیشل کمیشن کے سامنے فارم 45 اور فارم 47 کا موازنہ کرانا چاہتی ہے جس سے ان کو توقع ہے کہ وہ وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی اور ایسا ہونے سے بین الاقوامی طور پر جو الیکشن کو متنازع ہونے پر جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اس کا بھی ازالہ ہو جائے گا۔
21 اپریل کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 23 کے لگ بھگ نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں، ان کے نتائج پر بھی گہری نظر رکھنی ہو گی۔ اگر ان ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کے اثرات سے موجودہ سسٹم خطرے کی زد میں آ جائے گا اور عدالتیں اور بالخصوص الیکشن ٹربیونلز میں اپنے فیصلے کو فارم 45 اور 47 کے موازنے پر کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
29 اپریل کو سپریم کورٹ آف پاکستان چھ ججز کے خطوط پر فل کورٹ کے ذریعے اہم ترین فیصلہ کرے گی۔ اب اگر فل کورٹ چھ ججز کے خطوط کو آئین، قانون کے مطابق دیکھتی ہے تو پھر تین رکنی جوڈیشل کمیشن بنانا ہو گا اور بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے سامنے جو ججز کے خطوط کے علاوہ دیگر سمتوں سے بھی خطوط آنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور شنید ہے کہ میڈیا کمیونٹی سے بھی بعض اینکر پرسنز نے بھی جوڈیشل کمیشن کو خطوط بھجوانے پر غور و خوض کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پولیس گروپ سے بھی اسی طرز پر خطوط آنے کا امکانات پائے جاتے ہیں بلکہ بعض ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران بھی خطوط لکھنے کے لیے آمادہ کھڑے ہیں۔
نگران حکومتوں کی جن شخصیات کو آگے لایا گیا ہے ان کے بارے میں بھی جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس دائر کرنے کے لیے بھی تحریک انصاف کے وکلا ونگ نے کام شروع کر دیا ہے۔
جب یہ سب حالات درپیش ہوں گے تو ملک میں سیاسی، قانونی، آئینی اور انتظامی طوفان آ جائے گا۔ یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ اندرونِ خانہ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کے جن رہنماؤں نے پریس کانفرنس کے ذریعے عمران خان سے لاتعلقی کا اعلان کیا، البتہ عمران خان کی کردار کشی نہیں کی، ان کو واپس تحریک انصاف میں شامل کرایا جائے، ان کی تعداد نصف درجن کے قریب ہے۔
نواز شریف کے رویّے کو دیکھتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن میں اضطرابی کیفیت دیکھنے میں آ رہی ہے اورکسی بھی لمحے پریس کانفرنس کے ذریعے نواز شریف اہم ترین فیصلہ سنانے کے موڈ میں ہیں۔ رانا ثناء اللہ اور جاوید لطیف کے ذومعنی بیانات سے حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
عمران خان پر اندرونی طور پر رابطے میں یہی کہا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قریب آ جائیں۔ جس طرح نواب زادہ نصراللہ خان نے 1982 میں صدر جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم آرڈی کی تشکیل دے کر اس کی سربراہی بیگم نصرت بھٹو کے سپرد کر دی تھی اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں چار اپریل 1979 کے سانحہ کو فراموش کر کے نواب زادہ نصراللہ حان کے ساتھ جمہوریت کے احیا کے لیے کھڑی ہو گئی تھی، اسی فارمولے کے تحت عمران خان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور یہ تمام سیاسی تنازع مئی کے اوائل تک طے ہو جائیں گے اور فل کورٹ کے فیصلے بھی سامنے آ جائیں گے۔
اس صورتِ حال میں اگلے ڈیڑھ دو مہینے پاکستانی سیاست نئی کروٹ لیتے نظر آ رہی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔